مرکزی حکومت، جس نے ماحولیات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے آلودگی سے پاک توانائی پیدا کرنے اور سال 2030 تک تیل کی در آمدات میں دس فیصد تک کمی لانے کا عزم کرنا، ملک کے لئے ایک خوش خبری ہے۔ ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ملک کے بیشتر آبی ذخائر کی سطح سے 280گیگا واٹ (ایک گیگا واٹ ایک ہزار میگا واٹ کے برابر ہوتا ہے ) کے مقدار میں شمسی توانائی پیدا کی جاسکتی ہے۔ انرجی ری سورسز کمیشن، جو انرجی ٹرانسمشن کمیشن ( ای ٹی سی ) کا ایک حصہ ہے۔اس نے تخمینہ لگایا ہے کہ بھارت میں 18ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلے آبی ذخائر کی سطح اصل میں شمسی توانائی کے حصول کے ذخائر ہیں۔
نو ماہ قبل انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے یہ خوش خبری سنائی کہ بھارت ، جس نے سال 2022 ء تک ایک سو گیگا واٹ شمسی توانائی کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا ہوا ہے ، اس مقررہ مدت تک عملی طور پر 175گیگا واٹ شمسی توانائی پیدا کرنے کا اہل ثابت ہوگا۔
اگر آبی ذخائر کے سطح سے شمسی توانائی حاصل کرنا ممکن ہوسکا تو مستقبل میں اس طرح کے مزید معجزے رونما ہونے کے قوی امکانات ہیں ۔ کئی ممالک برسوں سے توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش میں ہیں، جن میں روایتی ایندھن کے استعمال کے نتیجے میں ماحولیات تباہ ہوچکا ہے۔
قابل تجدید توانائی کی اہلیت بڑھانے کے لئے کوشش کرتے ہوئے کیلی فورنیا نے شمسی توانائی کا پہلا پروجیکٹ ایک دہائی قبل ہی قائم کیا تھا۔ بعدازں یہ عمل دیگر ممالک نے بھی شروع کیا۔ عالمی بینک کے ایک حالیہ تخمینے کے مطابق امریکہ میں دس فیصد بجلی آبی ذخائر سے پیدا کی جاتی ہے۔ یہ تخمینہ بھی پہلے ہی لگایا جاچکا ہے کہ دنیا بھر میں اس طرح کی توانائی کی پیداوار مستقبل میں440گیگا واٹ تک پہنچے گی ۔
بعض تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا ہے کہ اس توانائی کی مقدار کا آدھا حصہ صرف بھارت کے آبی ذخائر سے ہی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے نئے مواقعوں اور نئے امکانات کی اُمید پیدا ہوگئی ہے۔ گریٹر حیدر آباد میں عمارتوں کی چھتوں پر سولر پاور پروجیکٹوں کو قائم کرنے کے رواج یہ عندیہ دیتا ہے کہ عوام میں توانائی کے متبادل ذرائع کے بارے میں جانکاری عام ہونا شروع ہوگئی ہے۔
مرکزی سرکار نے حال ہی میں گھروں، اپارٹمنٹس اور فصیل بند کالونیوں میں چھتوں پر شمسی توانائی کے پروجیکٹ قائم کرنے والوں کو مراعات دینے کا اعلان کیا ہے۔
اکثر یونیورسٹیوں، سرکاری اسپتالوں اور ریلوے اداروں میں شمسی توانائی پیدا کرنے سے متعلق خبریں آتی رہتی ہیں۔اس ضمن میں پانچ سال قبل وڈورا، گجرات میں پانی کی نہر پر 10میگاواٹ کا سولر پاور پلانٹ تعمیر کرنے کی خبر کافی پُر جوش تھی ۔
عام طور سے اگر اس طرح کا پروجیکٹ زمین پر تعمیر کرنا ہو تو اس کے لئے ایک وسیع راضی درکارہوگی۔ لیکن پانی کی نہر پر یہ پروجیکٹ تعمیر کرنے کا دوہرا فائدہ ہے۔ ایک یہ کہ اراضی کا استعمال نہیں کرنا پڑتا ہے اور دوئم یہ کہ پانی کا بھاپ بن کر اڑنے کا عمل بھی دھیما پڑ جاتا ہے۔ اس طرح کے پروجیکٹوں کی تعمیر پر دس سے پندرہ فیصد کا اضافی خرچہ آجاتا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل المدتی فوائد کے پیش نظر اضافی اخراجات قابل برداشت ہیں۔
وشاکا پٹنم میں مداسرلووا اور میگھدری گڑا کے آبی ذخائر پر شمسی توانائی کے پروجیکٹوں کی تعمیر میں لوہے کے بجائے المونیم کا استعمال کرنے کے بھی اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ان پروجیکٹوں کی تعمیر کے لئے جرمن ساخت کی سولر پنیلز کا استعمال کیا گیا اور اس بات کا خیال رکھا گیا کہ پانی کی سطح کم ہوجانے یا بڑھ جانے کے نتیجے میں ان پروجیکٹوں کے کام پر کوئی اثر نہ پڑے۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ چار سال قبل وزیر اعظم مودی نے انٹر نیشنل سولر کولیشن (آئی ایس اے ) کا افتتاح کیا۔ یہ لگ بھگ اُن 120ممالک کا اتحاد ہے، جو متبادل توانائی کے ذرائع کا استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر اس انجمن کی خدمات اور اُن ممالک کے تجربات سے استفادہ حاصل کیا جائے تو بھارت شمسی توانائی پیدا کرنے میں ایک کلیدی ملک کی حیثیت پاسکتا ہے، جو پہلے سے ہی شمسی توانائی کو پیدا کررہے ہیں، ۔ یہی موقعہ ہے جب بھارت کو موثر حکمت عملی اور ادارتی انفراسٹکچر کے ساتھ میدانِ عمل میں کود پڑنا چاہیے۔
چین نے یونان شہر میں ایک تباہ شدہ کوئلہ کی کان پر ایک مصنوعی جھیل بنائی ہے، جو شمسی توانائی کو پیدا کرنے کے عمل میں لمبی لمبی چھلانگیں مار رہا ہے ۔جس پر66لاکھ سولر پینلز کا استعمال کرتے ہوئے 40میگاواٹ شمسی توانائی پیدا کی جارہی ہے۔
جاپان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے سولر پروجیکٹ 60سے زائد آبی ذخائر پر تعمیر کئے ہوئے ہیں۔ انڈونیشیا ، تائیوان اور نیوزی لینڈ شمسی توانائی کے پلانٹس نصب کرنے والے نئے ممالک ہیں۔جبکہ بھارت کو کئی لحاظ سے ان ممالک کے مقابلے میں زیادہ موافق صورتحال میسر ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے بھی ہماری صورتحال اس ضمن میں بہت سود مند ہے ۔ بھارت کی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے یہاں سال میں تین سو دن کھلی دھوپ میسر ہوتی ہے۔ یہ ہمارا غیر منقولہ ورثہ ہے۔حالانکہ ہمارے یہاں کوئلہ اور گیس کے خزانے بھی ہیں، لیکن اب یہ ختم ہورہے ہیں۔ اگر یہ ختم ہوگئے تو توانائی کی پیداوار رُک جائے گی ۔ لیکن سورج کی روشنی ختم نہیں ہوگی ۔ یہ ایک لامحدود خزانہ ہے۔ پہلے ہی یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ شمسی توانائی کو زرعی زمینوں پر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ زمین کے بجائے آبی ذخائر پر سولر پروجیکٹ تعمیر کرنے کے نتیجے میں درختوں کا کٹائو بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
جرمنی اپنی بجلی کی گھریلو ضروریات کا 85فیصد شمسی اور ہوا کے دباؤ سے پیدا ہونے والی بجلی سے پورا کرتا ہے۔ اگر مرکزی اور ریاستی سرکاریں اس ضمن میں عزم کے ساتھ کام شروع کریں گے تو نئے امکانات اور نئے مواقع میسر ہوجائیں گے۔ اگر بھارت مجموعی بجلی کا دس فیصد بھی سولر سے پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ ملک میں بجلی کے شعبے میں ایک انقلاب لائے گا۔