اخبار فروخت کرنے والے محمد اکبر نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 'لاک ڈاؤن سے قبل خاصی تعداد میں اخبار فروخت ہوجاتے تھے لیکن اب لاک ڈاؤن کے بعد اخبار کی خرید و فروخت بری طرح متاثر ہوگئی ہے۔'
اخباروں کی خرید و فروخت میں کمی کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ اخبارات سے کورونا وائرس پھیل سکتا ہے اسی وجہ سے لوگ اخبار خریدنے سے ڈرتے ہیں۔
محمد اکبر نے کہا کہ' اخبارات کی فروخت میں کمی آنے سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'ان کی روزی روٹی کا ذریعہ بند سا ہو گیا ہے، ہم فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہیں، سرکاری امداد بھی ہم تک نہیں پہنچ رہی ہے'۔
محمد اکبر کی بیوی سفینہ بانو کا کہنا ہے کہ وہ شادی کے بعد ان کے شوہر کے ساتھ اخبار فروخت کرنے لگی۔ اخبار کی خرید و فروخت میں زیادہ منافع نہ ہونے کی وجہ سے اب تک وہ اپنے لیے مکان تک نہیں بنا سکے ہیں۔ ہماری حالت یہاں کے لوگوں کو بھی معلوم ہے لیکن کوئی سہارا نہیں ملتا۔'
اب تو حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ ایک وقت کھانا نصیب ہوتا ہے تو دوسرے وقت فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ علاقے ریڈ ژون ہونے کی وجہ سے پوری طرح سے سیل ہے جس سے ہماری پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا میں اور میرا بیٹا اور میرے شوہر کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے لیکن اب مجبوری کی وجہ سے لوگوں سے مدد مانگ رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جلد از جلد کسی طرح ہماری پریشانی حل ہو جائے۔'