رمضان کا مہینہ وہی ہے۔ روزے دار بھی ہیں عید کی تیاری کرنے والے لوگ بھی ہیں لیکن درزیوں کی دکانوں پر پہلی سی بھیڑنہیں ہے۔
پہلے رمضان میں درزیوں کی اتنی مانگ ہو اکرتی تھی کہ ایک درزی کے پاس درجنوں کاریگر ہوا کرتے تھے۔ رمضان کے مہینے میں درزی برادری کی معاشی حالت مستحکم ہو جاتی تھی لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔
درزیوں کا کہنا ہے کہ اس پیشے سے اب صرف دو وقت کی روٹی کا ہی انتظام ہو سکتا ہے اس کے علاوہ بچوں کی تعلیم اور دیگر اخراجات کا تصور محال ہے کیوں کہ یہ پیشہ محنت اور وقت طلب ہے جبکہ معاوضہ اتنا نہیں ملتا جتنا کے ملنا چاہیے۔
لیکن اس کے برعکس درزی پیشے کی بنیاد پر زمین سے آسمان کی بلندیوں کو چھونے والے اس پیشے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی پیشے میں وقت کے ساتھ چلنا ضروری ہوتا ہے اور جو فیشن کے نئے طریقہ کو نہیں اپناتا ہے وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔
تہوار کی مناسبت سے جب چھوٹے درزیوں کی آمدنی کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ تہوار کے سیزن میں بھی ان درزیوں کو محض پندرہ سے بیس ہزار روپئے آمدنی ہوتی ہے جو کسی بھی لحاظ سے کافی نہیں، درزی کے پیشہ کے تعلق سے اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک جینا ہے تب تک سینا ہے۔