کل شمالی بنگال کے رائے گنج میں پولنگ ہونے والی ہے۔
شمالی دیناجپور ضلع بنگلہ دیش سرحد سے متصل ہے ۔ یہاں پر مشترکہ تہذیب و تمدن کا بول بالا ہے جہاں بنگلہ بولنے والوں کے ساتھ ساتھ ہندی اور اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور یہاں مسلمانوں کی آبادی 49 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
رائے گنج ایک زمانے میں کانگریس کا گڑھ کہا جاتا تھا۔ یہ کانگریس کا روایتی سیٹ ہوا کرتا تھا جہاں سے سابق مرکزی وزیر پریا رنجن داس منسی ایم پی تھے اور ان کے بعد ان کی اہلیہ 2009 میں اس سیٹ سے ایم پی رہ چکی ہیں لیکن لیکن 2014 میں اس سیٹ پر سی پی آئی ایم کے سرکردہ رہنمامحمد سلیم نے دیپاداس منشی کو 1634 ووٹوں سے شکست دی تھی۔
کولکاتا سے چار سو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے رائے گنج کو چکن نیک بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ علاقہ مغربی بنگال کو شمالی بنگال اور شمال مشرقی ریاستوں سے جوڑتی ہے۔
رائے گنج ان سیٹوں میں شامل ہے جس پر بی جے پی کو اپنی جیت کا یقین ہے کیوں کہ حالیہ دنوں میں بی جے پی کو رائے گنج میں پولرائزیشن کا بھرپور موقع ملا تھا ۔اسلام پور کے تاریبھیٹ میں واقع اسکول میں ایک اردو ٹیچر کی تقرری کو لے کر ہنگامہ برپا ہوگیاتھا اور بی جے پی کو بنگلہ بنام اردو ایک ایشو مل گیا جس کو لے کر بی جے پی نے بڑے پیمانے پر پورے بنگال میں پولرائزیشن کرنے کی کوشش کی۔
واضح ہورہے کہ اس دوران دو بی جے پی حامیوں کی پولس فائرنگ میں موت ہوئی تھی۔
رائے گنج پارلیمانی حلقے میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا پچاس فیصد ہے۔ یہاں اردو بولنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ہندی بولنے والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔
بی جے پی کو اس پارلیمانی حلقہ میں جیت کا یقین ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں یہاں کے حالات میں بہت تیزی سے تبدیلی آئی ہے جہاں کبھی آل انڈیا میڈیکل سائنس انسیٹی ٹیوٹ ،چائے باغات اور کسانوں کے مسائل موضوع بحث ہوا کرتے تھے ۔
اب ان کی جگہ ارد بنام ہندی این آر سی اور بنگلہ دیشی دراندازی نے لے لی ہے۔
شمالی بنگال میں بی جے پی نے سب سے زیادہ اپنی طاقت لگائی ہے۔ 1952 سے گرچہ اس سیٹ پر کانگریس کا غلبہ رہا ہے، لیکن گذشتہ پانچ برسوں میں ترنمول کانگریس اور بی جے پی دونوں اس علاقے میں اپنی تاثر قائم کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔
محمد سلیم کو اس بار چہار رخی مقابلے کا سامنا ہے محمد سلیم طالب علمی کے زمانے سے سیاست میں سرگرم ہیں۔ فلسفہ میں پوسٹ گریجویٹ سلیم کو بیک وقت بنگلہ اردوپرماہرت حاصل ہے۔انگریزی زبانوں پر دسترس حاصل ہے ۔محمد سلیم کی پارلیمنٹ میں کارکردگی بہترین رہی ہے ۔
ان کا شمار ریاست کے بہترین پارلیمانی ارکان میں ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ میں حاضری کے معاملے میں وہ اول نمبر پر ہیں اور سب سے بحثوں میں حصہ لیا ہے اور ایم پی لیڈ فند جو ان کو مہیا کرایا گیا تھا اس کا 115 فیصد انہوں نے خرچ کیا ہے۔
انہوں نے 85 مرتبہ پارلیمنٹ میں بحث میں حصہ لیا اور 97 سوالات پوچھے ہیں اس طرح پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ان کارکردگی کافی بہتر رہا ہے۔ محمد سلیم کے مطابق گذشتہ پانچ سالوں میں وہ ہر ہفتے کے روز رائے گنج جایا کرتے تھے اور پارلیمانی سیشن کے دوران بھی چھٹی کے روز آپ نے پارلیمانی حلقہ رائے گنج جایا کرتے تھے مصیبت کے وقت وہ اپنے حلقہ کے لوگوں کے ساتھ رہے محمد سلیم کے مطابق بنگال میں اپوزیشن کے رکن پارلیمان کو آپ نے فنڈ کو خرچ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اپوزیشن کے تمام ایم پی کی یہی شکایت ہے کہ ان کو فنڈ کے استعمال میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی، مجھے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ضلع انتظامیہ پر دباؤ آ نا کر میں اپنے فنڈ کا پوری طرح استعمال کرنے میں کامیاب رہا۔ پرائے گنج میں آبادی کا تناسب ایک اہم فیکٹر ہے بی جے پی کو امید ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ ترنمول کانگریس، سی پی آئی ایم اور کانگریس کے درمیان تقسیم ہوگا جس کا فائدہ بی جے پی کو ملے گا کسی بھی امیدوار کے لیے سیٹ پر 30 فیصد ووٹ حاصل کرنا کامیابی کی ضامن ہے 2014 میں محمد سلیم 29 فیصد ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے تھے جبکہ کانگریس کی دیپا داس منشی کو 28.5 فیصد ووٹ ملے تھے ترنمول کانگریس کو 18.32 اور بی جے پی کو 17.39 فیصد ووٹ ملے تھے اس سیٹ پر محمد سلیم واحد مسلم امیدوار ہیں جبکہ دوسری پارٹیوں نے 50 فیصد مسلمانوں کی آبادی ہونے کے باوجود یہاں پر کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔
بی جے پی کو اس سیٹ پر پولرائزیشن کا فائدہ ہونے کی امید ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے رائے گنج میں ریلی کی تو ہندو مسلم اردو بنام بنگلہ این آر سی اور دراندازی جیسے مدعو کو اٹھایا اور ممتا بنرجی پر بنگالیوں پر اردو زبان مسلط کرنے کا الزام لگایا عر بی جے پی کے امیدوار دیباشری چوہدری بھی ان مسائل کو اٹھا رہی ہیں اور ترنمول کانگریس کو ہندوؤں کا دشمن بتا رہی ہیں ۔
وہیں ویسکی دیپا داس منشی کو اپنے پرانے ووٹ بینک پر بھروسہ ہے تو ترنمول کانگریس کے امیدوار کنہیا لال اگروال کو اپنی پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے پر ہے۔ 2018 میں داری بھیٹ اسکول میں اردو اور سنسکرت کے ٹیچروں کی تقرری کے خلاف احتجاج میں دو سابق طلبا کی موت کے معاملے کو بی جے پی نے اپنا ہتھیار بنایا ہے حالانکہ احتجاج اردو اور سنسکرت دونوں کے خلاف ہورہے تھے لیکن بی جے پی صرف اردو کا معاملہ اٹھاتے رہی بی جے پی کے قومی صدر امیر شاہ نے اپنی تقریر میں اردو کے خلاف زہر افشانی کرتے نظر آئے۔
رائے گنج مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے سبب تمام پارٹیوں کی نظر مسلم ووٹروں پر ہے جہاں ایک طرف ممتا بنرجی کی پارٹی ترینمول کانگریس کو یہ امید ہے کہ مسلمان ان کے روایتی ووٹرس ہیں ۔