واضح رہے کہ گزشتہ کل وزیر مملکت برائے داخلہ امور جی کشن ریڈی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مغربی بنگال کے بردوان اور مرشدآباد ضلع کے مدرسوں میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کو انجام دیا جاتا ہے۔ مرکز کے اس رپورٹ پر مغربی بنگال مذہبی و ملی رہنماؤں نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ کو جھوٹ پر مبنی سازش قرار دیا
مرکز کی رپورٹ میں مغربی بنگال کے مدرسوں میں دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے فنڈنگ کی جاتی ہے اور بنگلہ دیش کی ممنوعہ عسکری تنظیم جے ایم بی ان مدرسوں کی پشت پناہی کر نے کی بات کہی گئی ہے۔
اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے کولکاتا کے ملی و سیاسی رہنماؤں سے ان رائے جاننے کی کوشش کی ۔
سابق ایم پی محمد سلیم نے بتایا کہ مرکزی حکومت کے پاس اگر اس طرح کے ٹھوس ثبوت ہیں تو اس بات کو چھت پر کھڑے ہو کر اعلان کرنے کے بجائے اس پر کارروائی کرنی چاہیے تاکہ لوگ محفوظ رہ سکیں۔
کھاگڑا گڑھ کے معاملے سے ہی دیکھا جا رہا کہ مسلمانوں کو ان کی زبان کو اور ان کی شناخت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور آر ایس ایس اس پر سیاست کر رہی ہے اور مسلمانوں کو شکار بنایا جا رہا ہے اور کچھ لوگ اس مظلومیت کا رونا رونے لگ رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم پر ظلم ہو رہا ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام سے خطرہ ہے اور ایک طرف کے لوگ کہتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے نہ اسلام سے خطرہ ہے نہ اسلام خطرے میں ہے۔
آل بنگال مائناریٹی یوتھ فیڈریشن کے جنرل سکریٹری قمرالزماں نے بتایا کہ مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے مغربی بنگال کے مدرسوں سے متعلق جو رپورٹ پیش کی گئی ہے وہ سفید جھوٹ پر مبنی ہے اور مسلمانوں کے خلاف ایک اور منظم سازش کا حصہ ہے ۔
انہوں نے کہاکہ آزادی کے 70 برسوں میں یہ مسلمانوں کے خلاف سب سے سنگین اقدام ہے اور جو نہایت ہی خطرناک ہے ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں آزادی کے بعد ملک میں ایک بھی مثال نہیں ملتی ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر محمد عبدالرفیق نے کہاکہ مرکزی وزارت داخلہ کو اس طرح کہنے کہ بجائے کہ مدرسوں میں دہشت گردانہ سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ حکومت کو اس مدرسہ کا نام ظاہر کرنا چاہیے کہ کس مدرسہ میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔
اس طرح کے رپورٹ جاری کرکے ملک کے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جماعت اسلامی اس کی پر زور مذمت کرتی ہے اور مسلمانوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ بھی اس کا نوٹس لیں اور حکومت کے خلاف احتجاج کریں۔