سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے مسلم دنیا میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیا وہیں عمران خان نے کہا ہے کہ اسلاموفوبیا اور دہشتگردی نے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچایا۔
پاکستان کے وزیراعظم نے کہا کہ یہ او آئی سی کی ناکامی معلوم ہوتی ہے کہ ہم دیگر ممالک پر یہ واضح نہیں کرسکے کہ ہم اپنے نبی ﷺ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔یہ ہمارا کام ہے کہ مغربی عوام کو بتائیں کہ جب ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے تو ہم مسلمانوں کو کتنی تکلیف پہنچتی ہے،اس لیے ہمیں اقوامِ متحدہ، یورپی یونین جیسے فورمز پر انہیں بتانا ہوگا کہ وہ آزادی اظہارِ رائے کے نام پر ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتے۔
سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے کہا ہے کہ ہمیں مختلف خطرات سے مل کر نمٹنا ہوگا اور ہم اسلامی دنیا میں امن و استحکام چاہتے ہیں۔
شاہ سلمان نے بیت المقدس کے تقدس کو نقصان پہنچانے کی تمام کوششوں کو مسترد کردیا ہے اور کہا کہ عالم اسلام القدس کو گزند نہیں پہنچنے دیں گے۔
اجلاس منعقد کرنے پر ترکی کی جانب سے ترک وزیر خارجہ اوغلو نے سعودی حکومت کا خیر مقدم کیا گیا اور القدس اور فلسطین سے متعلق کامیاب اسلامی سربراہ اجلاس منعقد کرنے کی تعریف کی گئی۔
بحرین کے شاہ نے اجلاس کے مبارک ماہ اور مبارک دن 27ویں رمضان کے انعقاد کو سراہا اور علاقائی امن کیلئے عالمی اداروں پر زوردیا کہ ایران کی مداخلت والی پالیسی کا سدباب کیا جائے۔
کرغیزستان کے صدر سورنبائی جینبیکوف نے بھی علاقائی صورتحال پہ تشویش ظاہر کی اور اقوام متحدہ کواپنا کردا ادا کرنے پر زوردیا۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھی کانفرنس کے انعقاد کی تعریف کی اور کہا ہے عالمی امن کیلئے ضروری ہے کہ امت مسلمہ اک جسم وجاں ہو کر دہشتگردی کی مذمت کرے اور امن وامان کیلئے ٹھوس اقدامات و ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرے.
بنگلا دیش کی شیخ حسینہ واجد نے بھی اس بات پہ زور دیا کہ فلسطین کی حق خودارادیت کاحل نکالاجائے۔
کویت، تیونس،اور دیگر ملکوں نے بھی بیت المقدس کو اسرائیل کا مبینہ دارالحکومت تسلیم کرنے کے غیر قانونی، غیر ذمہ دارانہ فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ایسی کوششوں کو مسترد کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کا یہ ایک باطل فیصلہ ہے اور اسے فلسطینیوں اور اسلامی دنیا کے تاریخی، قانونی اور حقوق پر حملہ ہے۔