ETV Bharat / briefs

مغل دور حکومت میں ہولی کا رنگ اور بھی گہرا تھا - مغل فرمانروا

مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے دور حکومت میں بھارت میں رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ دیا، انہوں نے تمام تہواروں میں مساویانہ رخ اختیار کیا اوراس روایت کو اورنگ زیب سمیت تمام حکمراں نے جاری رکھا۔

مغل دربار کا منظر جس میں بادشاہ اور درباری ہولی کھیل رہے ہیں
author img

By

Published : Mar 21, 2019, 10:41 AM IST

Updated : Mar 21, 2019, 12:51 PM IST

ہولی کھیلوں گی کہہ بسم اللہ
نام نبی کی رتن چڑھی، بوند پڑی اللہ اللہ

بھارت مختلف مذاہب کا سنگم ہے اور اس میں ایک شاہانہ دور مغلوں کا بھی تھا، اس وقت مغل بھی ہولی کھیلا کرتے تھے، کیوں کہ اس وقت مذہب میں برادران وطن کا تہوار ایک دوسرے کے ساتھ نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ مناتے تھے۔اٹھارہویں صدی کے معروف پنجابی صوفی بلّے شاہ نے کہا کہ برصغیر صدیوں سے تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہے، اور اسی لیے بھارت کو گنگا جمنی تہذیب کا علم بردار کہا جاتا ہے، لیکن دونوں مذاہب کو اس کے رکھوالوں سے خطرہ ہے۔

یاد رہے کہ دور حاضر میں اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس وقت کے صوفی اور بھکتوں نے دونوں برادری کے درمیان بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے۔

بھارت میں ہولی پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے،لیکن جب مسلمان بھارت آئے تو انہوں نے بھی انہیں لوگوں کی مانند اس تہوار کو منانا شروع کیا، خواہ وہ وقت شہنشاہ ہو یا فقیر۔

بسنت پنچمی سے اس تہوار کی شروعات ہوتی ہے، اور لوگ رنگوں اور گلال ایک دوسری کے چہروں پر لگا کر مناتے ہیں۔

مندروں میں سرسوں کے پھول چڑھائے جاتے ہیں اور ابیر گلال فضاؤں میں بکھیر دیا جاتا ہے۔

ہولی بھارت کا نہایت ہی خوشگوار اور رنگارنگی سے پرُ تہوار ہے، جس میں لوگ ایک دوسرے کے گلے شکوے بھول کر ایک دوسرے کو رنگ اور گلال لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کے بغل گیر ہوجاتے ہیں۔

تیرہوں صدی میں امیر خسرو نے اپنے شعروں کے ذریعے لکھا تھا کہ

کھیلوں گی ہولی خواجہ گھر آئے
دھن دھن بھاگ ہماری سجنی
خواجہ آئے ساجن میرے

مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے دور حکومت میں بھارت میں رواداری اور بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دیا، اور انہوں نے اپنے تمام تہواروں میں مساویانہ رخ اختیار کیا، جس روایت کو اورنگ زیب سمیت تمام حکمراں نے جاری رکھا۔

مغلوں کے دور حکومت میں ذات پات اور مذہب کی کوئی دیوار کہیں حائل نہیں تھی اور نہ ہی آج کی طرح رشتوں میں تلخی تھی ایک غریب بھی کسی امیر آدمی پر رنگ پھینک سکتا تھا۔

مغولوں کے دور میں اگر کسی کو رنگ خراب لگتاتھا تو وہ کہتا تھا کہ 'برا نہ مانو ہولی ہے' یا دوسری انداز میں اس کو کچھ اس انداز میں بھی کہا جاتا تھا کہ

کیوں موپ ماری رنگ کی پچکاری
دیکھ کنورجی دوں گی گاری

بھاج سکوں میں کیسے مودو بھاجو نہیں جات
تھا نہیں اب دیکھوں میں باکو کون جہ سن مکھ آت

بہت دنن میں ہاتھ لگے ہوکیسے جانے دوں
آج میں پھہگاوا تاساؤ کہاں پھیتا پکڑ کر لوں

سوکھ رنگ ایسے ایسے ڈھیٹ رنگرساؤ کھیلے کون اب ہولی
مکھ مڈائی اور ہاتھ مروڑے کرکے وہ برجوری

جب پھاگن رنگ جھمکتے ہو
تب دیکھ بہاریں ہولی کی
جب دف کے شور کھڑکے ہوں
اب دیکھ بہاریں ہولی کی
پریوں کے رنگ دھمکتے ہوں
تب دیکھ بہاریں ہولی کی

گلزارکھیلے ہوں پریوں کے، اور مجلس کی تیاری ہو
کپڑوں پر رنگ کے چھینٹیں ہوں، خوش رنگ عجب گلکاری کی

آج ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے ہولی کا مذہبی تہوار عقیدت و احترام سے منارہے ہیں۔

اس وقت بھی بھارت میں ورنداون اور متھرا کی ہولی خاص ہوتی ہے جس کا لطف لینے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔

برسانہ میں لوگ ہر سال لٹھ مار ہولی مناتے ہیں، جو بہت ہی دلچسپ ہوتی ہے۔

ہولی کھیلوں گی کہہ بسم اللہ
نام نبی کی رتن چڑھی، بوند پڑی اللہ اللہ

بھارت مختلف مذاہب کا سنگم ہے اور اس میں ایک شاہانہ دور مغلوں کا بھی تھا، اس وقت مغل بھی ہولی کھیلا کرتے تھے، کیوں کہ اس وقت مذہب میں برادران وطن کا تہوار ایک دوسرے کے ساتھ نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ مناتے تھے۔اٹھارہویں صدی کے معروف پنجابی صوفی بلّے شاہ نے کہا کہ برصغیر صدیوں سے تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہے، اور اسی لیے بھارت کو گنگا جمنی تہذیب کا علم بردار کہا جاتا ہے، لیکن دونوں مذاہب کو اس کے رکھوالوں سے خطرہ ہے۔

یاد رہے کہ دور حاضر میں اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس وقت کے صوفی اور بھکتوں نے دونوں برادری کے درمیان بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے۔

بھارت میں ہولی پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے،لیکن جب مسلمان بھارت آئے تو انہوں نے بھی انہیں لوگوں کی مانند اس تہوار کو منانا شروع کیا، خواہ وہ وقت شہنشاہ ہو یا فقیر۔

بسنت پنچمی سے اس تہوار کی شروعات ہوتی ہے، اور لوگ رنگوں اور گلال ایک دوسری کے چہروں پر لگا کر مناتے ہیں۔

مندروں میں سرسوں کے پھول چڑھائے جاتے ہیں اور ابیر گلال فضاؤں میں بکھیر دیا جاتا ہے۔

ہولی بھارت کا نہایت ہی خوشگوار اور رنگارنگی سے پرُ تہوار ہے، جس میں لوگ ایک دوسرے کے گلے شکوے بھول کر ایک دوسرے کو رنگ اور گلال لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کے بغل گیر ہوجاتے ہیں۔

تیرہوں صدی میں امیر خسرو نے اپنے شعروں کے ذریعے لکھا تھا کہ

کھیلوں گی ہولی خواجہ گھر آئے
دھن دھن بھاگ ہماری سجنی
خواجہ آئے ساجن میرے

مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے دور حکومت میں بھارت میں رواداری اور بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دیا، اور انہوں نے اپنے تمام تہواروں میں مساویانہ رخ اختیار کیا، جس روایت کو اورنگ زیب سمیت تمام حکمراں نے جاری رکھا۔

مغلوں کے دور حکومت میں ذات پات اور مذہب کی کوئی دیوار کہیں حائل نہیں تھی اور نہ ہی آج کی طرح رشتوں میں تلخی تھی ایک غریب بھی کسی امیر آدمی پر رنگ پھینک سکتا تھا۔

مغولوں کے دور میں اگر کسی کو رنگ خراب لگتاتھا تو وہ کہتا تھا کہ 'برا نہ مانو ہولی ہے' یا دوسری انداز میں اس کو کچھ اس انداز میں بھی کہا جاتا تھا کہ

کیوں موپ ماری رنگ کی پچکاری
دیکھ کنورجی دوں گی گاری

بھاج سکوں میں کیسے مودو بھاجو نہیں جات
تھا نہیں اب دیکھوں میں باکو کون جہ سن مکھ آت

بہت دنن میں ہاتھ لگے ہوکیسے جانے دوں
آج میں پھہگاوا تاساؤ کہاں پھیتا پکڑ کر لوں

سوکھ رنگ ایسے ایسے ڈھیٹ رنگرساؤ کھیلے کون اب ہولی
مکھ مڈائی اور ہاتھ مروڑے کرکے وہ برجوری

جب پھاگن رنگ جھمکتے ہو
تب دیکھ بہاریں ہولی کی
جب دف کے شور کھڑکے ہوں
اب دیکھ بہاریں ہولی کی
پریوں کے رنگ دھمکتے ہوں
تب دیکھ بہاریں ہولی کی

گلزارکھیلے ہوں پریوں کے، اور مجلس کی تیاری ہو
کپڑوں پر رنگ کے چھینٹیں ہوں، خوش رنگ عجب گلکاری کی

آج ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے ہولی کا مذہبی تہوار عقیدت و احترام سے منارہے ہیں۔

اس وقت بھی بھارت میں ورنداون اور متھرا کی ہولی خاص ہوتی ہے جس کا لطف لینے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔

برسانہ میں لوگ ہر سال لٹھ مار ہولی مناتے ہیں، جو بہت ہی دلچسپ ہوتی ہے۔

Intro:Body:

In Mughal India, Holi was celebrated with the same exuberance as Eid


Conclusion:
Last Updated : Mar 21, 2019, 12:51 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.