ETV Bharat / bharat

مودی اور آزاد کا ایک دوسرے کے تئیں نرم گوشہ کیوں؟ - مودی کا تذکرہ

سبکدوش ہونے والے قانون ساز ارکان کو رسمی طور پر الوداع کہنا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن غلام نبی آزاد کی راجیہ سبھا سے سبکدوشی کے موقع پر وزیر اعظم مودی نے جس انداز اور رویے کا مظاہرہ کیا، وہ اپنے آپ میں ایک خاص بات تھی۔۔۔ یہ تجزیاتی رپورٹ ای ٹی وی بھارت کے نیوز ایڈیٹر بلال بھٹ نے تحریر کی ہے۔

Why is Modi and Azad soft for each other?
مودی اور آزاد کا ایک دوسرے کے تئیں نرم گوشہ کیوں؟
author img

By

Published : Mar 2, 2021, 1:09 PM IST

Updated : Mar 2, 2021, 8:27 PM IST

لگ بھگ ایک ماہ قبل قائد حزبِ اختلاف غلام نبی آزاد نے اپنی الوداعی تقریر میں کانگریس کا اتنا تذکرہ نہیں کیا جتنا وہ وزیر اعظم کے بارے میں بولے۔ جب وزیر اعظم نے بھی قائد حزب اختلاف کے حق میں اپنی مؤثر اور جذباتی تقریر کرتے ہوئے ایک نئی روایت کی داغ بیل ڈال دی۔ اپنی تقریر میں وزیر اعظم نے ماضی کے ایک واقعہ کو دہراتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ جب آزاد جموں کشمیر میں وزیر اعلیٰ تھے، تو کس طرح سے انہوں نے گجرات کے سیاحوں کی مدد کی جو کشمیر میں تشدد کی زد میں آگئے تھے۔

پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں، جو راجیہ سبھا کے چار اراکین شمشیر سنگھ، نذیر احمد، فیاض احمد اور غلام نبی آزاد کی سبکدوشی کے موقع پر اُنہیں رسمی طور پر الوداع کہنے کے لئے بلایا گیا تھا، توجہ کا مرکز آزاد ہی بنے رہے۔

حزب اختلاف کے لیڈر کو الوداع کہتے ہوئے وزیر اعظم کی آنکھیں نم تھیں اور وہ مسلسل اُن کی تعریفیں کرتے رہے۔ دفعہ 370 کو کالعدم کرنے کا ذکر کیے بغیر مودی نے بتایا کہ کس طرح سے سبکدوش ہونے والے اراکینِ پارلیمان اپنی اس میعادِ کار کے دوران تاریخی فیصلوں کا حصہ بن گئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آزاد نے بھی اپنی تقریر میں اپنے الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا اور تقریر میں دفعہ 370 کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ایسی کوئی بات کہی جو بی جے پی کو ناگوار گزرتی۔

اب اس الوداعی گیم کے سیاسی نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ بالخصوص ان نتائج کے عندیے اُس وقت سے صاف نظر آنے لگے ہیں، جب سے G23 گروپ میں شامل کانگریس لیڈروں، جنہوں نے سونیا گاندھی کے نام خط میں پارٹی کے اندر تعمیرِ نو کا مشورہ دیا تھا، نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ہے۔

یہ ایک آزمودہ بات ہے کہ سیاست میں کوئی بھی چیز اچانک رونما نہیں ہوتی ہے بلکہ ہر چیز منصوبہ بند اور طے شدہ ہوتی ہے۔ اتوار کو جموں کے جلسے سے میں آزاد کی تقریر میں کانگریس کو ازسرِ نو متحرک کرنے کے بارے میں باتوں سے زیادہ مودی کا تذکرہ سننے کو ملا۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کچھ اہم ہونے والا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہونے والا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں لیڈر، یعنی مودی اور آزاد باہمی فائدہ حاصل کرپائیں گے۔

آزاد اپنی غیر جانبداری، جو اُنہوں نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے راجیہ سبھا میں کی گئی اپنی آخری تقریر میں بھی قائم رکھی، کو برقرار رکھتے ہوئے، مودی کے حق میں کوئی کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ وہ اس حد تک غیر جانبدار ہیں اور سوچ سمجھ کر اپنے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں کہ جب وہ راجیہ سبھا میں مودی کے حق میں بول رہے تھے تو پل بھر کے لئے بھی نہیں لگا کہ وہ کانگریس یا گاندھی پریوار سے اپنی وابستگی کو کم درجہ دے رہے ہیں۔

یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ مودی اور آزاد کے درمیان میلان کہاں پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی توقعات کیسے پوری کرپائیں گے۔

آزاد حزب اختلاف کی جماعت میں شامل ایک مسلم چہرہ ہیں، وہ ایک سخت گیر قوم پرست ہیں اور جموں کشمیر جیسی کشیدگی والی جگہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اب تو وہ کانگریس G23 میں بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں اُن کے تئیں مودی کے نرم گوشے کی وجہ سے ان کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آزاد کی ان خوبیوں کے باوجود مودی اُن سے کس طرح سے استفادہ کرپائیں گے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ آزاد اب G23 گروپ کے لیڈر ہیں۔ حالانکہ اس گروپ کا دعویٰ ہے کہ وہ پارٹی سے جدا نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ ایک علاحدہ فرنٹ کے بطور ابھر گیا ہے۔ اس گروپ میں ایک ایسے وقت پر جموں سے اپنی مہم شروع کردی ہے، جب پانڈیچری اور چار ریاستوں میں انتخابات ہونے جارہے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی تاریخوں کے اعلان کئے جانے کے ایک دن بعد ہی اس گروپ نے جموں میں اپنا جلسہ کیا۔ اس دوران پرینکا گاندھی نے پارٹی کے لئے آسام میں انتخابی مہم شروع کردی ہے لیکن G23 میں شامل کوئی بھی لیڈر انتخابی مہم میں اُن کا ساتھ دیتے ہوئے نظر نہیں آیا۔

ایسا لگتا ہے کہ آزاد اور اُن کے ساتھی کچھ دلچسپ کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب جموں و کشمیر کی لیڈر شپ کی جانب سے اس کا ریاستی درجہ کی بحالی کے مطالبہ کے حوالے سے بی جے پی شدید دباؤ کا شکار ہے، جموں میں آزاد کی تقریر اور اُن کی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنا معنی خیز بات ہے۔

یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کہیں آزاد کی سیاسی پینترہ بازی اور جموں و کشمیر میں ریاست کے درجے کی بحالی کا کوئی تعلق تو نہیں ہے۔ کانگریس کی منحرف لیڈر شپ بظاہر راہل گاندھی کو پارٹی کا صدارتی عہدہ بلا مقابلہ جیتنے کا موقع نہیں دے گی اور اگر یہ لیڈرشپ اپنا من پسند پارٹی صدر نہیں بنا پائی تو اس کے پاس پارٹی کو دو لخت کرنا واحد راستہ ہوگا۔ تاکہ وہ اپنے دھڑے کا من پسند لیڈر چُن پائیں۔ ایسی صورتحال میں آزاد مودی کے ساتھ اچھے مراسم رکھنا چاہیں گے۔ جس انداز میں وہ اپنی تقریروں میں مودی کے نام کا وِرد کرتے نظر آرہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ وہ اپنے لئے آپشن کُھلا رکھنا چاہتے ہیں۔

لگ بھگ ایک ماہ قبل قائد حزبِ اختلاف غلام نبی آزاد نے اپنی الوداعی تقریر میں کانگریس کا اتنا تذکرہ نہیں کیا جتنا وہ وزیر اعظم کے بارے میں بولے۔ جب وزیر اعظم نے بھی قائد حزب اختلاف کے حق میں اپنی مؤثر اور جذباتی تقریر کرتے ہوئے ایک نئی روایت کی داغ بیل ڈال دی۔ اپنی تقریر میں وزیر اعظم نے ماضی کے ایک واقعہ کو دہراتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ جب آزاد جموں کشمیر میں وزیر اعلیٰ تھے، تو کس طرح سے انہوں نے گجرات کے سیاحوں کی مدد کی جو کشمیر میں تشدد کی زد میں آگئے تھے۔

پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں، جو راجیہ سبھا کے چار اراکین شمشیر سنگھ، نذیر احمد، فیاض احمد اور غلام نبی آزاد کی سبکدوشی کے موقع پر اُنہیں رسمی طور پر الوداع کہنے کے لئے بلایا گیا تھا، توجہ کا مرکز آزاد ہی بنے رہے۔

حزب اختلاف کے لیڈر کو الوداع کہتے ہوئے وزیر اعظم کی آنکھیں نم تھیں اور وہ مسلسل اُن کی تعریفیں کرتے رہے۔ دفعہ 370 کو کالعدم کرنے کا ذکر کیے بغیر مودی نے بتایا کہ کس طرح سے سبکدوش ہونے والے اراکینِ پارلیمان اپنی اس میعادِ کار کے دوران تاریخی فیصلوں کا حصہ بن گئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آزاد نے بھی اپنی تقریر میں اپنے الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا اور تقریر میں دفعہ 370 کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ایسی کوئی بات کہی جو بی جے پی کو ناگوار گزرتی۔

اب اس الوداعی گیم کے سیاسی نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ بالخصوص ان نتائج کے عندیے اُس وقت سے صاف نظر آنے لگے ہیں، جب سے G23 گروپ میں شامل کانگریس لیڈروں، جنہوں نے سونیا گاندھی کے نام خط میں پارٹی کے اندر تعمیرِ نو کا مشورہ دیا تھا، نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ہے۔

یہ ایک آزمودہ بات ہے کہ سیاست میں کوئی بھی چیز اچانک رونما نہیں ہوتی ہے بلکہ ہر چیز منصوبہ بند اور طے شدہ ہوتی ہے۔ اتوار کو جموں کے جلسے سے میں آزاد کی تقریر میں کانگریس کو ازسرِ نو متحرک کرنے کے بارے میں باتوں سے زیادہ مودی کا تذکرہ سننے کو ملا۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کچھ اہم ہونے والا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہونے والا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں لیڈر، یعنی مودی اور آزاد باہمی فائدہ حاصل کرپائیں گے۔

آزاد اپنی غیر جانبداری، جو اُنہوں نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے راجیہ سبھا میں کی گئی اپنی آخری تقریر میں بھی قائم رکھی، کو برقرار رکھتے ہوئے، مودی کے حق میں کوئی کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ وہ اس حد تک غیر جانبدار ہیں اور سوچ سمجھ کر اپنے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں کہ جب وہ راجیہ سبھا میں مودی کے حق میں بول رہے تھے تو پل بھر کے لئے بھی نہیں لگا کہ وہ کانگریس یا گاندھی پریوار سے اپنی وابستگی کو کم درجہ دے رہے ہیں۔

یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ مودی اور آزاد کے درمیان میلان کہاں پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی توقعات کیسے پوری کرپائیں گے۔

آزاد حزب اختلاف کی جماعت میں شامل ایک مسلم چہرہ ہیں، وہ ایک سخت گیر قوم پرست ہیں اور جموں کشمیر جیسی کشیدگی والی جگہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اب تو وہ کانگریس G23 میں بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں اُن کے تئیں مودی کے نرم گوشے کی وجہ سے ان کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آزاد کی ان خوبیوں کے باوجود مودی اُن سے کس طرح سے استفادہ کرپائیں گے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ آزاد اب G23 گروپ کے لیڈر ہیں۔ حالانکہ اس گروپ کا دعویٰ ہے کہ وہ پارٹی سے جدا نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ ایک علاحدہ فرنٹ کے بطور ابھر گیا ہے۔ اس گروپ میں ایک ایسے وقت پر جموں سے اپنی مہم شروع کردی ہے، جب پانڈیچری اور چار ریاستوں میں انتخابات ہونے جارہے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی تاریخوں کے اعلان کئے جانے کے ایک دن بعد ہی اس گروپ نے جموں میں اپنا جلسہ کیا۔ اس دوران پرینکا گاندھی نے پارٹی کے لئے آسام میں انتخابی مہم شروع کردی ہے لیکن G23 میں شامل کوئی بھی لیڈر انتخابی مہم میں اُن کا ساتھ دیتے ہوئے نظر نہیں آیا۔

ایسا لگتا ہے کہ آزاد اور اُن کے ساتھی کچھ دلچسپ کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب جموں و کشمیر کی لیڈر شپ کی جانب سے اس کا ریاستی درجہ کی بحالی کے مطالبہ کے حوالے سے بی جے پی شدید دباؤ کا شکار ہے، جموں میں آزاد کی تقریر اور اُن کی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنا معنی خیز بات ہے۔

یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کہیں آزاد کی سیاسی پینترہ بازی اور جموں و کشمیر میں ریاست کے درجے کی بحالی کا کوئی تعلق تو نہیں ہے۔ کانگریس کی منحرف لیڈر شپ بظاہر راہل گاندھی کو پارٹی کا صدارتی عہدہ بلا مقابلہ جیتنے کا موقع نہیں دے گی اور اگر یہ لیڈرشپ اپنا من پسند پارٹی صدر نہیں بنا پائی تو اس کے پاس پارٹی کو دو لخت کرنا واحد راستہ ہوگا۔ تاکہ وہ اپنے دھڑے کا من پسند لیڈر چُن پائیں۔ ایسی صورتحال میں آزاد مودی کے ساتھ اچھے مراسم رکھنا چاہیں گے۔ جس انداز میں وہ اپنی تقریروں میں مودی کے نام کا وِرد کرتے نظر آرہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ وہ اپنے لئے آپشن کُھلا رکھنا چاہتے ہیں۔

Last Updated : Mar 2, 2021, 8:27 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.