برطانیہ، جو پہلے ہی تاریخی لحاظ سے بدترین مالی بحران سے جوجھ رہا ہے، میں اب تک ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو ٹیکے لگوائے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ لاک ڈاؤن میں نرمی لانے سے ہچکچا رہا ہے۔ جرمنی اور فرانس کے ساتھ ساتھ اسرائیل، نیتھر لینڈ، پرتگال اور ویت نام کا بھی یہی کہنا ہے کہ وائرس سے نمٹنے کےلئے لاک ڈاؤن کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ یہ اطلاعات اور بھی پریشان کن ہیں کہ برطانیہ کے کینٹ علاقے میں ملا کورونا وائرس کا نیا اسٹرین ستر فیصد زیادہ خطرناک وائرس ہے۔
بھارت میں 80 لاکھ لوگوں کو ٹیکے لگوائے گئے ہیں اور گزشتہ ایک ہفتے سے ملک کے 185 اضلاع میں کہیں بھی کووِڈ کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ فی الوقت یہ وبا کیرالہ اور مہاراشٹر تک ہی محدود ہے۔
مرکزی سرکار کا کہنا ہے کہ اگلے دو سے تین ہفتوں میں پچاس سال سے زائد عمر کے لوگوں کو ٹیکے لگوانے کی مہم شروع کی جائے گی۔ حکومت نے یقین دلایا ہے کہ ویکسین کی مزید 18 اقسام ملک بھر میں جلد ہی دستیاب ہوں گی۔ حکومت نے تین کروڑ کارکنوں، جو کووِڈ سے نمٹنے میں صف اول کے کارکنوں کی حیثیت سے کام کررہے ہیں، کو پہلے مرحلے پر ٹیکے لگوانے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن کروڑوں لوگ اپنی ہچکچاہٹ کی وجہ سے ٹیکے لگوانے کےلئے سامنے نہیں آئے۔
تحقیق سے یہ دل دہلا دینے والی حیقیقت سامنے آئی ہے کہ جس رفتار سے فی الوقت ٹیکے لگوانے کا کام جاری ہے، اگر یہی رفتار رہی تو ملک بھر کی پوری آبادی کو ٹیکے لگوانے میں مزید پانچ سال لگ جائیں گے۔ ایک جانب لوگ ویکیسن لگوانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں اور دوسری جانب کروڑوں لوگ اسے لگوانے کےلئے انتظار کررہے ہیں۔ حکومت کو یہ تعطل دور کرنے کےلئے اقدامات کرنے چاہیئں۔
بھارت دُنیا بھر میں ایک ایسے ملک کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے، جو زندگی بچانے کے لئے کام آنے والی ویکسین بنانے والا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اسے یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہ ویکیسن کو ملک کے کونے کونے تک پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہے۔
ایک جانب یہ کہا جارہا ہے کہ جن لوگوں نے اب تک ٹیکے لگوائے ہیں، اُن میں سے محض دس فیصد لوگوں نے ہی اس کی دوسری خوراک لینے میں دلیچسپی دکھائی۔ حالانکہ اُنہیں تاکید کی گئی تھی کہ ویکیسن کی پہلی خوراک لینے کے بعد ٹھیک 28 ویں دن اس کی دوسری خوراک لیں۔ اب تک ملک کی مجموعی تعداد کے 0.6 فیصد نے ہی ویکیسن لگوائی ہے۔
اس صورتحال سے یہ اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ ملک کی پوری آبادی کو ویکیسن لگوانا کتنا بڑا چیلنج ہے۔ ملک بھر میں کئے گئے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ صرف 21.5 فیصد آبادی میں ہی کووڈ سے لڑنے کی صلاحیت رکھنے والی انٹی باڈیز یعنی مدافعتی مادے پیدا ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پانچ لوگوں میں سے صرف ایک کے پاس وبا سے لڑنے کی قوت مدافعت ہے۔ قوت مدافعت سے عاری باقی لوگوں کو ویکیسن لگوا کر محفوظ بنانا بہت ضروری ہے۔ لوگوں میں عمومی قوتِ مدافعت صرف اُس وقت پیدا ہوگی، جب پہلے 60 سے 70 فیصد لوگوں میں انٹی باڈیز پیدا ہوں۔ اس صورتحال میں مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے عوام کو ویکیسن کے ذریعے تحفظ فراہم کرائے۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ویکیسن لگوائے بغیر کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس ماہرانہ مشورے پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ویکیسن کے عمل کو تیز کرنے کے لئے پرائیویٹ ہسپتالوں کو بھی اس مہم میں شریک کیا جانا چاہیے۔
بتایا جاتا ہے کہ کووِڈ 19 کی ویکیسن کی قابل استعمال معیاد چھ ماہ ہے۔ اس لئے ویکیسن کی مہم میں تیزی لانی ضروری ہے کیونکہ انہیں بنانے والی کمپنیوں کے پاس ویکیسن کی کروڑوں خوراکیں تیار پڑی ہیں۔ ویکیسن کی تیاری کے عمل پر کنٹرول رکھنے، اس کی قلت نہ ہونے دینے اور اس کی ٹھیک تقسیم کاری یقینی بنانے کے لئے مؤثر قواعد و ضوابط بنائے جانے چاہییں، تاکہ اس کی بلیک مارکیٹنگ نہ ہو پائے۔ ویکیسن کو تیار کرنے کا عمل جاری رکھنا ہوگا تاکہ اس کی خوراکیں مطلوبہ تعداد میں میسر ہوں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ کووِڈ 19 کے حوالے سے طے شدہ ضوابط جیسے کہ ماسک پہننا اور جسمانی دوریاں بنائے رکھنے کے عمل پر سختی سے عمل یقینی بنایا جانا چاہیے۔