تریپورہ میں یو اے پی اے ایف آئی آر کے معاملے میں وکلا اور صحافیوں کو بڑی راحت ملی ہے۔ سپریم کورٹ نے آئندہ حکم تک وکلا اور صحافیوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
حال ہی میں تریپورہ میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات پر پوسٹ اور رپورٹ کرنے کے الزام میں تریپورہ پولیس نے دو وکلا اور ایک صحافی کے خلاف UAPA اور تعزیرات ہند (IPC) کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جس پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس ڈی وائی چندر چور اور جسٹس سوریہ کانت کی تین رکنی بینچ نے دو وکلیوں مکیش اور انصارالحق انصار اور صحافی شیام میرا سنگھ کی جانب سے دائر رٹ عرضی میں نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم جاری کیا ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ آئندہ حکم تک عرضی گزاروں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کی جائے۔'
عرضی گزاروں کی جانب سے پرشانت کشور پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ' تریپورہ تشدد کے دوران دونوں وکلیوں نے تریپورہ کا دورہ کیا تھا اور فرقہ وارانہ فسادات پر حقائق پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کی وجہ سے تریپورہ پولیس نے ان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 41 اے کے تحت ایف آئی آر کرکے انہیں تفتیش کے لیے حاضر ہونے کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔ '
اس پر سی جے آئی نے کہا کہ' انہوں نے کچھ خبریں پڑھیں ہیں جس میں ذکر ہے کہ کچھ صحافیوں کو ضمانت دے دی گئی ہے۔ بھوشن نے واضح کیا کہ وہ دیگر صحافی تھے، عرضی گزاروں کو گرفتار کیا جانا باقی ہے۔ تب کورٹ نے عرضی پر نوٹس کا حکم دیا اور کہا کہ' عرضی گزاروں کے خلاف کوئی سخت قدم نہیں اٹھائے جائیں گے۔'
عرضی میں مسلم شہریوں کے خلاف تشدد اور مسجدوں پر حملے ( بنگلہ دیش میں ہندوں کے خلاف فساد کے بعد) کی واردات کی عدالت کی نگرانی میں جانچ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔'
بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے دوران ہوئے تشدد کے بعد مبینہ طور پر بھارتی ریاست تریپورا میں مسلمانوں سے بدلہ لیا گیا۔ اس دوران تقریباً 8 مساجد اور سینکڑوں دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئیں۔
مزید پڑھیں: