ETV Bharat / bharat

لیبیا: طرابلس کے باشندوں کا قذافی کے بیٹے کے خلاف احتجاج

ہائی نیشنل الیکشن کمیشن نے ایک بیان میں کہا کہ سیف الاسلام نے دارالحکومت طرابلس سے 650 کلومیٹر (400 میل) جنوب میں واقع جنوبی قصبے سبھا میں اپنی امیدواری کے کاغذات جمع کرائے ہیں۔

Tripoli residents protest Gadhafi's son and election law
Tripoli residents protest Gadhafi's son and election law
author img

By

Published : Nov 16, 2021, 2:18 PM IST

لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں پیر کے روز مظاہرین کا ایک گروپ لیبیا کے آنجہانی آمر معمر قذافی کے بیٹے کی صدارتی امیدواری کی مذمت کرنے کے لیے جمع ہوا۔

لیبیا: طرابلس کے باشندوں کا قذافی کے بیٹے کے خلاف احتجاج

لیبیا کی انتخابی ایجنسی نے بتایا کہ سیف الاسلام، جو 2011 کی بغاوت سے متعلق انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کو مطلوب ہے، نے اتوار کو اگلے ماہ ملک کے صدارتی انتخابات کے لیے اپنی امیدواری کا اعلان کیا۔

ہائی نیشنل الیکشن کمیشن نے ایک بیان میں کہا کہ سیف الاسلام نے دارالحکومت طرابلس سے 650 کلومیٹر (400 میل) جنوب میں واقع جنوبی قصبے سبھا میں اپنے امیدواری کے کاغذات جمع کرائے ہیں۔

ایک احتجاجی کارکن نے کہا کہ لیبیا میں کسی ایسے شخص کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے جس نے لیبیا کے عوام کے خلاف جرم کیا ہو۔

احتجاجی کارکن عاصم گیبابی کا کہنا ہے کہ "ہم یہاں ان مجرموں (سیف الاسلام اور حفتر) کی امیدواری کے خلاف احتجاج کرنے آئے ہیں جو آئینی اعلان اور آئینی قواعد کے مطابق منحرف سمجھے جاتے ہیں۔ ہم انتخابات کے خلاف نہیں ہیں۔ بلکہ ہم جلد سے جلد انتخابات چاہتے ہیں تاکہ ہم اپنا ووٹ ڈال سکیں۔ لیبیا کے باشندے ہونے کی حیثیت سے ہمیں انتخابات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔''

قذافی کے بیٹے کو 2011 کے آخر میں زنتان قصبے میں فائٹرز نے پکڑ لیا تھا، جب نیٹو کی حمایت یافتہ عوامی بغاوت نے 40 سال سے زیادہ اقتدار میں رہنے کے بعد ان کے والد کا تختہ الٹ دیا تھا۔ معمر قذافی اکتوبر 2011 میں اس لڑائی کے دوران مارے گئے جو بعد میں خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی۔

2011 کی بغاوت سے قبل طویل عرصے سے آمر کے دوسرے بیٹے کو قذافی حکومت کے اصلاح پسند چہرے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اسے پانچ سال سے زیادہ حراست کے بعد جون 2017 میں رہا کیا گیا۔

اس جولائی میں سیف الاسلام نے نیویارک ٹائمز کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ وہ ملک کے اعلیٰ عہدے کے لیے انتخاب لڑنے پر غور کر رہے ہیں۔ ان کی امیدواری نے منقسم ملک میں تنازعات کو جنم دیا۔

سیف الاسلام 2011 کی بغاوت کے پہلے ہفتوں میں مبینہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں آئی سی سی کو مطلوب ہے۔

قذافی کے بیٹے ملک کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیے اپنی امیدواری جمع کرانے والے پہلے بڑے صدارتی امیدوار ہیں۔ ان کے پورے لیبیا کے قبائل سے گہرے روابط ہیں۔

احتجاجی کارکن عمر بارہ کا کہنا ہے کہ "انتخابی قانون کو مرتب کیا جانا چاہیے، خاص طور پر امیدواری کے لیے شرائط، تاکہ لیبیا میں کسی ایسے شخص کے لیے کوئی جگہ نہ ہو جس نے لیبیا کے لوگوں کے خلاف جرم کیا ہو۔ کسی ایسے شخص کے لیے کوئی جگہ نہیں جس نے قتل، چوری یا غبن کیا ہو۔''

یہ بھی پڑھیں: لیبیا میں عبوری اتحاد حکومت کو منظوری

طاقتور فوجی کمانڈر خلیفہ ہفتر بھی قذافی کے بیٹے کے حمایتی ہیں۔ اس لیے پیر کو مظاہرین نے ان کے خلاف بھی نعرے لگائے۔

اقوام متحدہ کی قیادت میں جمہوری مستقبل کے آغاز اور ملک کی خانہ جنگی کو ختم کرنے کی برسوں کی کوششوں کے بعد لیبیا میں 24 دسمبر کو صدارتی انتخابات ہونے جا رہا ہے۔

قذافی کی معزولی اور قتل کے بعد تیل کی دولت سے مالا مال لیبیا نے گزشتہ دہائی کا بیشتر حصہ حریف حکومتوں کے درمیان تقسیم میں گزارا ہے۔

لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں پیر کے روز مظاہرین کا ایک گروپ لیبیا کے آنجہانی آمر معمر قذافی کے بیٹے کی صدارتی امیدواری کی مذمت کرنے کے لیے جمع ہوا۔

لیبیا: طرابلس کے باشندوں کا قذافی کے بیٹے کے خلاف احتجاج

لیبیا کی انتخابی ایجنسی نے بتایا کہ سیف الاسلام، جو 2011 کی بغاوت سے متعلق انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کو مطلوب ہے، نے اتوار کو اگلے ماہ ملک کے صدارتی انتخابات کے لیے اپنی امیدواری کا اعلان کیا۔

ہائی نیشنل الیکشن کمیشن نے ایک بیان میں کہا کہ سیف الاسلام نے دارالحکومت طرابلس سے 650 کلومیٹر (400 میل) جنوب میں واقع جنوبی قصبے سبھا میں اپنے امیدواری کے کاغذات جمع کرائے ہیں۔

ایک احتجاجی کارکن نے کہا کہ لیبیا میں کسی ایسے شخص کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے جس نے لیبیا کے عوام کے خلاف جرم کیا ہو۔

احتجاجی کارکن عاصم گیبابی کا کہنا ہے کہ "ہم یہاں ان مجرموں (سیف الاسلام اور حفتر) کی امیدواری کے خلاف احتجاج کرنے آئے ہیں جو آئینی اعلان اور آئینی قواعد کے مطابق منحرف سمجھے جاتے ہیں۔ ہم انتخابات کے خلاف نہیں ہیں۔ بلکہ ہم جلد سے جلد انتخابات چاہتے ہیں تاکہ ہم اپنا ووٹ ڈال سکیں۔ لیبیا کے باشندے ہونے کی حیثیت سے ہمیں انتخابات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔''

قذافی کے بیٹے کو 2011 کے آخر میں زنتان قصبے میں فائٹرز نے پکڑ لیا تھا، جب نیٹو کی حمایت یافتہ عوامی بغاوت نے 40 سال سے زیادہ اقتدار میں رہنے کے بعد ان کے والد کا تختہ الٹ دیا تھا۔ معمر قذافی اکتوبر 2011 میں اس لڑائی کے دوران مارے گئے جو بعد میں خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی۔

2011 کی بغاوت سے قبل طویل عرصے سے آمر کے دوسرے بیٹے کو قذافی حکومت کے اصلاح پسند چہرے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اسے پانچ سال سے زیادہ حراست کے بعد جون 2017 میں رہا کیا گیا۔

اس جولائی میں سیف الاسلام نے نیویارک ٹائمز کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ وہ ملک کے اعلیٰ عہدے کے لیے انتخاب لڑنے پر غور کر رہے ہیں۔ ان کی امیدواری نے منقسم ملک میں تنازعات کو جنم دیا۔

سیف الاسلام 2011 کی بغاوت کے پہلے ہفتوں میں مبینہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں آئی سی سی کو مطلوب ہے۔

قذافی کے بیٹے ملک کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیے اپنی امیدواری جمع کرانے والے پہلے بڑے صدارتی امیدوار ہیں۔ ان کے پورے لیبیا کے قبائل سے گہرے روابط ہیں۔

احتجاجی کارکن عمر بارہ کا کہنا ہے کہ "انتخابی قانون کو مرتب کیا جانا چاہیے، خاص طور پر امیدواری کے لیے شرائط، تاکہ لیبیا میں کسی ایسے شخص کے لیے کوئی جگہ نہ ہو جس نے لیبیا کے لوگوں کے خلاف جرم کیا ہو۔ کسی ایسے شخص کے لیے کوئی جگہ نہیں جس نے قتل، چوری یا غبن کیا ہو۔''

یہ بھی پڑھیں: لیبیا میں عبوری اتحاد حکومت کو منظوری

طاقتور فوجی کمانڈر خلیفہ ہفتر بھی قذافی کے بیٹے کے حمایتی ہیں۔ اس لیے پیر کو مظاہرین نے ان کے خلاف بھی نعرے لگائے۔

اقوام متحدہ کی قیادت میں جمہوری مستقبل کے آغاز اور ملک کی خانہ جنگی کو ختم کرنے کی برسوں کی کوششوں کے بعد لیبیا میں 24 دسمبر کو صدارتی انتخابات ہونے جا رہا ہے۔

قذافی کی معزولی اور قتل کے بعد تیل کی دولت سے مالا مال لیبیا نے گزشتہ دہائی کا بیشتر حصہ حریف حکومتوں کے درمیان تقسیم میں گزارا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.