عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران کووِڈ وبا کے پھیلاو میں شدت اور گزشتہ چار ہفتوں کے دوران اس کی وجہ سے ہونے والی اموات کے پیش نظر خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔
بھارت میں مہاراشٹرا، چھتیس گڑھ، کرناٹکا، اُتر پردیش، کیرالہ اور دیگر ریاستوں میں کووِڈ کے پھیلاو میں شدت پائی جارہی ہے۔ یکم مارچ 2021ء کو ملک میں ساڑھے پندرہ ہزار کووِڈ کیسز کا اندراج ہوا تھا۔ آج متاثرین کی تعداد اس سے بارہ گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ مہاراشٹرا کے رائے پور میں اندوہناک منظر دیکھنے کو ملا، جب یہاں کووِڈ کی وجہ سے مارے جانے والے آٹھ افراد کا بیک وقت انتم سنسکار کیا گیا۔ اس صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ کووِڈ کے تئیں لاپرواہی برتنے کے نتیجے میں ہمیں کیا قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ پچھلے سال کے برعکس اس سال کووِڈ وبا اپنے عروج پر پہنچے گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ کووِڈ سے متعلق رہنما قوائد کو نظر انداز کرنا، مقامی انتخابات، بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد، شادی بیاہ یا دوسری تقریبات سے متعلق بھیڑ بھاڑ جیسی باتیں کووِڈ کے پھیلاؤ کے اسباب میں شامل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ گزشتہ سال کے اسمبلی انتخابات کے مواقعوں پر کووِڈ گائیڈ لائنز کا کیا حشر ہوا تھا؟ کمبھ میلہ اس نعرے کے ساتھ شروع کیا گیا کہ بھگوان کے تئیں عقیدت کے اظہار کے نتیجے میں کووِڈ ختم ہوجائے گا۔ کمبھ میلے جیسی بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے کووِڈ کا مزید پھیلاو یقینی ہے۔ اس سے قبل کہ ویکسین ملک کے ہر شہری کے پاس پہنچ پاتی، حکومت نے پہلے ہی تاثر دیکر لوگوں کی غفلت شعاری میں اضافہ کردیا کہ اب ویکیسن آچکی ہے۔ لاپرواہی کے اس رویہ کے نتیجے میں کووِڈ وبا کے پھیلاو میں شدت پیدا ہوگئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شہریوں کی جانب سے لاپرواہی برتنے کے ساتھ ساتھ وائرس کی شکل میں تبدیلی رونما ہوجانے کی وجہ سے بھی صورتحال بد سے بدتر ہوگئی ہے۔ جس طرح گزشتہ سال کے اوائل میں اسپتال میں بیڈوں، ادویات اور آکسیجن کی قلت دیکھنے کو ملی تھی، اسی طرح کی صورتحال اس وقت بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
مرکز نے ایمرجنسی کے معاملات میں اسپٹنک وی اور دیگر غیر ملکی ویکسینوں کے استعمال کو منظوری دے دی ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ادویہ ساز انڈسٹری کے ساتھ تال میل قائم کرتے ہوئے اور طبی شعبہ منہدم ہوجانے سے روکنے کےلئے اقدامات کے ساتھ ساتھ مختلف سطحوں پر کووِڈ کے خلاف مہم شروع کرے۔
بھارت، جسے ملک، جسے دُنیا کی ویکیسن راجدھانی مانا جاتا ہے، میں اب تک صرف 0.7 فیصد آبادی نے ہی ویکسین کی دونوں خوراکیں لی ہیں۔ جبکہ محض چھ فیصد آبادی نے اب تک ویکسین کا ایک ڈوز لیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ کووِڈ کے خلاف جنگ کو تب تک آگے نہیں بڑھایا جاسکتا ہے، جب تک ٹیکہ کاری کی مہم کو فی دن پچاس لاکھ ٹیکے لگوانے کے ہدف تک نہ پہنچا جائے۔ یہ بات واضح ہے کہ لوگوں کے دلوں سے ویکسین سے متعلق خدشات کو دُور کرنے میں ناکامی اور ریاستوں کو وافر مقدار میں ویکسین فراہم کرنے میں ناکامی وبا کے خلاف جنگ میں سُستی کے وجوہات ہیں۔
یہ حکومت کہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ ویکسین کی بدولت وہ کووِڈ سے لڑنے کے اہل ہوجائیں گے اور ان کی زندگیوں کو لاحق خطرہ ٹل جائے گا۔ ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں نے پہلے ہی مرکز سے کہا ہےکہ وہ ویکسین کی پیدوار وسیع پیمانے پر یقینی بنانے کےلئے مالی معاونت کرے۔ حکومت نے مشن کووِڈ سرکھشا اسکیم کے تحت ویکسین بنانے والی مقامی کمپنیوں کی مالی معاونت کے لئے بجٹ میں 35 ہزار کروڑ روہے مختص کئے ہیں۔ تاہم حکومت کو پوری آبادی کی ٹیکہ کاری یقینی بنانے کےلئے موثر اقدامات کرنے ہونگے۔
ویکسین کی قیمت کو اعتدال میں رکھنے کے ساتھ ساتھ حکومت اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ امریکا میں جانسن اینڈ جانسن ویکسین نے صحت کے حوالے سے ایک متنازعہ صورتحال پیدا کردی ہے۔ مرکزی سرکار، جس نے آکسیجن کے اسٹاک کے حصول کےلئے اسٹیل اور تیل صاف کرنے والی کمپنیوں سے رابطہ کیا ہے، کو انسداد کورونا کے نام پر ناقابل بھروسہ ادویات کی تشہیر کو روکنے کی طرف بھی توجہ دینا ہوگا۔
اگر ہمیں اس اَن دیکھے وائرس کے خلاف جنگ میں کم سے کم زندگیوں کے اتلاف کی قیمت پر جنگ جیتنی ہے تو مرکزی اور ریاستوں حکومتوں کو مل جل کر بھر پور کوشش کرنی ہوگی اور کسی بھی قسم کی لاپرواہی کا مظاہرہ کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔