طالبان کابل میں داخل ہوگئے ہیں، جہاں انہوں نے اشرف غنی حکومت سے حکومت کی پُرامن حوالگی کے تعلق سے مذاکرات کیے۔ افغان صدراشرف غنی استعفی دے کر ملک چھوڑ کر چلے گئے، علی احمد جلالی کو نئی عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کئے جانے کا امکان ہے۔
وہیں بھارت میں مقیم افغانستان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ تمام ممالک کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے۔ ہم بھارت میں رہ رہے ہیں اور ہم یہاں محفوظ ہیں لیکن ہمارے خاندان کے افراد افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم ان سے بات بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے رشتہ دار کئی دنوں سے ایک ہی گھر میں قید ہیں۔
دہلی کے حوض رانی علاقے میں بڑی تعداد میں افغان باشندے رہتے ہیں۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہم بھارت میں رہ رہے ہیں۔ بھارت ایک اچھا ملک ہے، یہاں ہم اپنے ملک کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ یہاں غیر ملکی ہونے کا احساس نہیں ہوتا لیکن جو صورت حال افغانستان میں پیدا ہوئی ہے وہ شاید ہماری زندگی میں کبھی نہیں ہوئی۔ طالبان ہماری خواتین کے ساتھ غلط سلوک کر رہے ہیں اور ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
مزید پڑھیں:۔ Afghanistan: 'کابل کو خونریزی سے بچانے کے لیے ملک چھوڑنا پڑا'
دہلی میں مقیم ایک افغانی دکاندار نے بھارتی حکومت سے ایپل کی ہے کہ بھارت اس معاملہ میں ان کی مدد کرے، بھارت ہمارے لوگوں کو ویزا دے کر ان کو یہاں بلائے کیونکہ طالبان نے افغانستان پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں کی صورتحال بہت خراب ہو چکی ہے، عوام پریشان ہے، لوگوں کے پاس کھانے کو پیسے نہیں ہیں، بینک کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگی ہیں، وہاں لوگوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے 31 اگست تک افغانستان سے اپنی تمام فوجیں نکالنے کا اعلان کیا ہے، اعلان کے بعد سے ہی افغانستان میں طالبان کا اثر و رسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اب تک 90 فیصد سے زیادہ امریکی فوجی واپس جا چکے ہیں۔