نئی دہلی: وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے آج کہا کہ پردھان منتری مدرا یوجنا (پی ایم ایم وائی) کے آغاز کے بعد سے اب تک 23.2لاکھ کروڑ روپے کے 40.82 کروڑ روپے سے بھی زیادہ کے قرض منظور کئے گئے ہیں جن سے روزگار پیدا کرنے میں مدد ملی ہے اور یہ ہندوستانی معیشت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ گیم چینجر بھی ثابت ہوئی ہے۔
وزیر خزانہ نے یہاں اس اسکیم کے آٹھ سال مکمل ہونے کے موقع پر کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی دور اندیشانہ قیادت میں شروع کی گئی اس اسکیم سے مائیکرو انٹرپرائزز کے لیے قرض تک آسان اور پریشانی سے پاک رسائی ممکن ہوئی ہے اور اس سے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے میں مدد ملی ہے۔
پردھان منتری مدرا یوجنا (پی ایم ایم وائی) وزیر اعظم کے ذریعہ 8 اپریل 2015 کو شروع کی گئی تھی جس کا مقصد کاروباری سرگرمیوں کے لئے غیر کارپوریٹ، غیر زراعت کے چھوٹے اور مائیکرو انٹرپرینیورز کو 10 لاکھ روپے تک کے ضمانتی مفت مائیکرو قرض تک آسان رسائی فراہم کرنا تھا۔ پی ایم ایم وائی کے تحت قرض درحقیقت ممبر قرض دینے والے اداروں (ایم ایل آئی) جیسے بینک، غیر بینکنگ مالیاتی کمپنیاں (این بی ایف سی)، مائیکرو فنانس انسٹی ٹیوشنز (ایم ایف آئی) اور دیگر مالیاتی اداروں کے ذریعہ فراہم کئے جاتے ہیں۔
پی ایم ایم وائی کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے سیتا رمن نے کہا کہ 24 مارچ 2023 تک اسکیم کے آغاز سے لے کر اب تک 40.82 کروڑ قرض کھاتوں میں تقریباً 23.2 لاکھ کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے۔ اسکیم کے تحت تقریباً 68 فیصد اکاؤنٹس خواتین کاروباریوں کے ہیں اور 51 فیصد اکاؤنٹس ایس سی/ ایس ٹی اور او بی سی زمروں کے کاروباریوں کے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے ابھرتے ہوئے کاروباری افراد کو قرضے کی آسانی سے دستیابی کے نتیجے میں جدت اور فی کس آمدنی میں پائیدار ترقی ہوئی ہے۔
ایم ایس ایم ای کے ذریعے ترقی پر وزیر خزانہ نے کہا کہ ایم ایس ایم ای کی ترقی نے 'میک ان انڈیا' پروگرام میں بہت زیادہ تعاون کیا ہے کیونکہ مضبوط گھریلو ایم ایس ایم ای نے گھریلو مارکیٹوں کے ساتھ ساتھ برآمدات کے لیے گھریلو پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ پی ایم ایم وائی اسکیم نے نچلی سطح پر روزگار کے بہت زیادہ مواقع پیدا کرنے میں مدد کی ہے اور یہ ہندوستانی معیشت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ گیم چینجر بھی ثابت ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Nirmala Sitharaman On Budget نرملا سیتا رمن کو پارلیمنٹ میں بجٹ پر بحث نہ ہونےپر افسوس
یو این آئی