وہ 1984 سے ککران میں رہائش پذیر تھے اور مسلم اکثریتی علاقہ میں رہنے والی پنڈت برادری کے چند خاندانوں میں شامل تھے۔ مقامی مسلمانوں نے کاکران میں ہی ان کی آخری رسوم و انجام دیا اور اس کی موت پر علاقہ کے سبھی لوگ سوگوار نظر آئے۔
ککران کے مسلمانوں نے میت کو کندھا دیا اور آخری رسومات کے لئے لکڑیوں کا بندوبست کیا۔
ایک مقامی شخص نے ان کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے ایک اپنا شخص کھو دیا ہے۔ وہ بالکل بڑے بھائی کی طرح تھے اور میں ان سے مشورے لیتا تھا''۔ ایک اور شخص نے نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ان کے ساتھ خوشیاں اور غم بانٹے ہیں اور ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آج ہمارے خاندان کا ایک فرد گزر گیا ہے''۔
ککران کے طارق احمد نے کہا کہ "ہم نے اپنے پڑوسی کے مذہب سے قطع نظر ان کے آخری سفر میں مدد کرنے کا فرض ادا کیا۔ "ہمارے درمیان بھائی چارہ اور ہم آہنگی تھی۔ ہمارا فرض تھا کہ ہم اپنے پنڈت پڑوسیوں کے غم کی گھڑی میں ان تک پہنچیں۔ دریں اثنا چند کشمیری پنڈت جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ ان کی آخری رسوم میں شامل ہونے کے لئے پہنچے تھے، نے مقامی مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا "یہ ہمارے مسلمان بھائیوں کے انتظامات اور ان کی مدد وجہ سے ہی ہے کہ ہمیں آخری رسومات کو پورا کرنے میں کوئی پریشانی نہیں اٹھانی پڑی۔" کشمیری مسلمانوں اور پنڈتوں کے مابین فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ ہمیشہ ایک مثال رہا ہے۔