ملک بھر میں مسلمانوں کے ووٹ کو متحد کرنے کے لیے لکھنؤ کی الامام ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے اب ایک سیاسی ونگ بنانے کی جا رہی ہے، اس ونگ کا مقصد سیاسی پارٹی کو جیتنے کے لیے مسلمانوں کے منقسم ووٹ کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے جو نہ صرف سیاست کرے گا بلکہ مسلمانوں کے مسائل حل کرنے اور مسلمانوں کو روزگار اور تعلیم سے جوڑنے کے لیے پہل کرے گا۔ جس پر مسلم مذہبی رہنماؤں کا بیان بھی سامنے آگیا ہے۔ مسلم مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ اسی وقت متحد ہوسکتا ہے جب مسلمانوں کی قیادت متحد ہوگی۔
ایک طویل عرصے سے مسلمان ملک میں سیاست کا مرکز رہے ہیں، آزادی کے بعد سے ہی بہت ساری سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے نام پر غلبہ حاصل کرتی رہیں، لیکن آزادی کے 70 سال بعد بھی مسلمانوں کی حالت جوں کا توں ہے۔ ایسی صورتحال میں لکھنؤ کی الامام ویلفیئر ایسوسی ایشن کے قومی صدر عمران حسن صدیقی نے ایک ایسا سیاسی ونگ بنانے کی بات کی ہے جس کے ذریعے ملک بھر کے مسلمانوں کو متحد کر کے ایک ایسی سیاسی جماعت کی حمایت میں کھڑا کیا جائے گاجو مسلمانوں کے معاملات پر کھل کر سامنے آئے۔ اسی کو لے کر عمران حسن صدیقی نے ملک کے مشہور مذہبی رہنماؤں کے علاوہ بڑی مذہبی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علما سے ملاقات کے بارے میں بات کہی ہے، جس پر شیعہ سنی مذہبی رہنماؤں کے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں۔
اس معاملے میں آل انڈیا شیعہ چاند کمیٹی کے چیئرمین اور مذہبی رہنما مولانا سیف عباس کا بیان بھی سامنے آیا ہے۔ مولانا سیف عباس کہتے ہیں کہ مسلمان اس ملک میں ہمیشہ متحد رہتے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی قیادت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ متحد نہیں ہیں۔ اگر مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والے لوگ متحد ہوجائیں گے تو مسلمانوں کا ووٹ بھی متحد ہوجائے گا اور کوئی بھی سیاسی جماعت مسلمانوں کا ووٹ بینک حاصل کرنے کے لیے سیاست نہ کرکے مسلمانوں کے معاملات کو پس پشت ڈالنے کے قابل نہیں ہوگا۔
جس سے مسلمانوں میں روزگار اور تعلیم کے مواقع میں اضافہ کرے گا جو اس وقت مسلمانوں کے لئے اہم ہے، مولانا سیف عباس نے پسماندہ معاشرے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو پسماندہ طبقات سے سبق سیکھنا چاہیے کیونکہ کل تک وہ سیاسی جماعتیں جو دلتوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے دلت معاشرے کی ترقی کے لیے موجودہ دور کی سیاست میں دلتوں کو پسماندہ سمجھتی ہیں اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اس سماج کی قیادت کرنے والا ایک مضبوط شخص تھا، لہذا مسلمانوں کو بھی اپنی سرگرمیاں مضبوط بنانا ہوں گی۔
اس معاملے پر لکھنؤ عیدگاہ کے امام مولانا خالد راشد فرنگی محلی کا بیان بھی منظرعام پر آیا ہے مولانا خالد رشید فرنگی محلی کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ مانا ہے اور اسی وجہ سے ہم بھی اسی کی پیروی کر رہے ہیں کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولر ملک میں کسی مذہب یا برادری پر سیاست کرنا درست نہیں ہے۔ کیوں کہ جب بھی مذہب کی بنیاد پر سیاست کی گئی ہے، تو اس نے اپنی قدر کھو دی ہے۔ لہذا ہم سب کو سیکولرازم پر قائم رہنا چاہیے اور ملک کی ترقی کے لیے مضبوطی سے آگے بڑھنا چاہیے۔
اہم بات یہ ہے کہ ان دنوں ملک و ریاست میں مسلمانوں کو لے کر خوب سیاست ہو رہی ہے، جس پر اب ایک سیاسی مسلم ونگ بنانے کی بات کی جارہی ہے جس کے ذریعہ ملک کے تمام مسلمانوں اور مذہبی رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جاسکے۔ لیکن یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس سیاسی ونگ کی سربراہی کون کرتا ہے اور کون مسلمانوں کو متحد کرنے اور اپنے ووٹ بینک کو صحیح سمت میں منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کرتا ہے، جو پورے ملک میں مسلم تنظیموں اور مذہبی رہنماؤں کے لیے بہت مشکل سمجھا جاتا ہے۔