لکھنؤ: ریاست اترپردیش کے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے طلبہ و طالبات کو اسکالرشپ سے محروم کردیا گیا ہے، تعلیمی پالیسی 2022/23 کے حوالے سے مرکزی حکومت نے ایک ہدایت جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن قانون کے نفاذ کے بعد بچوں کو مفت تعلیم مہیا کرائی گئی ہے لہذا اسکالرشپ دینے لیے کوئی جواز نہیں ہے، اب پری میٹرک اسکالرشپ صرف نویں اور دسویں جماعت کے طلباء حاصل کرسکیں گے۔ اس حوالے سے ماہر تعلیم مولانا ذکی نور عظیم ندوی نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ فیصلہ اقلیتوں کے حق میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی طبقوں میں خواندگی کی شرح انتہائی تشویشناک ہے۔ ایسے میں وظائف سے محروم کرنا طلبہ و طالبات کو سخت آزمائش میں مبتلا کرنے کے مترادف ہوگا۔ Minority students scholarships removed from first to 8th classes
مزید پڑھیں:۔ ST Hassan on Children's Education اپنے بچوں کی تعلیم کے تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، ایم پی ایس ٹی حسن
انہوں نے کہا کہ اقلیتی طبقہ کے طلبہ و طالبات کی مالی حالت انہتائی ناگفتہ بہ ہوتی ہے، جسکی وجہ سے وہ تعلیم کو جاری رکھنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اس طرح کی اسکالرشپ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی تھی لیکن اب حق تعلیم پالیسی نافذ ہو گئی ہے اور اس کے تحت مفت تعلیم فراہم کرائی جاتی ہے لیکن ان کی پسماندگی دور نہیں ہوئی ہے، ایسے میں وظیفہ کو بند کرنے کا فیصلہ تعلیم کو پس پشت ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس سے تعلیمی شرح میں گراوٹ درج ہوگی اور بیشتر طلبہ تعلیم سے دوری اختیار کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیشتر طلبہ و طالبات کے اہل خانہ اس حیثیت میں نہیں ہوتے ہیں کہ ان کی چھوٹے چھوٹے اخراجات کو بھی برداشت کر سکیں لہذا اس طرح کی اسکالرشپ سے ان کی نہ صرف حوصلہ افزائی ہوتی تھی بلکہ تعلیم حاصل کرنے میں مددگار اور معاون ثابت ہوتی تھی۔ حکومت کے اس قدم سے لاکھوں طلبہ تعلیم سے محروم ہوسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل حکومت اقلیتی طلبہ و طالبات کو یونیفارم، کتابیں، دوپہر کا کھانا اور وظائف جیسی سہولت مہیا کراتی تھی اور گذشتہ برس تقریبا چھ لاکھ بچوں کو وظیفہ دیا گیا تھا لیکن رواں برس لاکھوں کی تعداد میں طلبہ و طالبات نے وظیفہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تھی لیکن حکومت کے اس ہدایت پر ان کی درخواست مسترد کر دی جائے گی۔