مولانا محمود اسعد مدنی نے آج جاری ایک بیان کہا کہ اقلیتوں اور کمزور طبقات کے معاملے میں میڈیا کا جج بن جانا اور انھیں مجرم بنا کر پیش کرنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے، ماضی میں تبلیغی جماعت کو لے کر اسی طرح کا رویہ اختیار کیا گیا تھا۔ اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن کو ملزم بنایا جاتا ہے، اس کو اور اس سے وابستہ لوگوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور بعد میں جب عدالتیں ان کو بے قصور قرار دے دیتی ہیں، تو یہی میڈیا خاموشی کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔
صدر جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ ہر ایک کو اپنے موقف کے دفاع اور عدالت میں انصاف کے لیے اپنی طرف سے مضبوطی سے بات رکھنے کا بنیادی حق ہے، اس سے کسی کو کوئی محروم نہیں کرسکتا۔ اس لیے جمعیۃعلماء ہند نے عمر گوتم کے صاحبزادے عبداللہ عمر کی گزارش پر فیصلہ کیا ہے کہ ان کے مقدمات کی بھر پور پیروی کرے گی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اگر انھوں نے کچھ غلط کیا ہے تو یہ کام عدالت کا ہے کہ ان کے لیے سزا طے کرے، عدالت سے ہٹ کر عدالت بن جانا اور جرم ثابت ہونے سے قبل کسی کو مجرم بنا کر پیش کرنا یہ ایک خطرناک روش ہے، ہم عدالت کو بھی متوجہ کریں گے کہ وہ میڈیا ٹرائل پر روک لگائے، اس سے نہ صرف یہ کہ پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ خراب ہوتی ہے بلکہ ملک کے نظام اور سسٹم کا بھی مذاق بنتا ہے، نیز انصاف کی جد وجہد کرنے والوں کا عرصہ حیات تنگ ہو تا ہے۔
ایسی صورت حال کے مدنظر مولانا حکیم الدین قاسمی ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند نے لکھنو کا دورہ کیا، جہاں عمر گوتم ریمانڈ پر ہیں اور وہاں ان کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے ان کے دفاع کے بنیادی حق میں ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا۔ مولانا محمود اسعد مدنی نے یوپی سرکار کی طرف سے بیان بازی پر بھی سوال اٹھا یا اور کہا کہ حکومت کو سب کے لیے برابر ہو نا چاہیے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یتی نرسنگھا نند جیسے لوگ لگاتار مسلمانوں کی دل آزاری کررہے ہیں اور مذہب اسلام کی توہین کررہے ہیں، مگر سرکار کوئی بھی کارروائی نہیں کررہی ہے،حالاں کہ جمعیۃ علماء ہند نے اس کے خلاف وزیر اعلی کو خط لکھا ہے، اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے، لیکن اس کے بارے میں کوئی ایکشن لینے کے بجائے ایسے عناصر کی پشت پناہی ہور ہی ہے۔
یو این آئی