ETV Bharat / bharat

آزادی کی جدوجہد میں راجا سُریندر سنگھ اور ویر نارائن سنگھ کا کردار - بھارت کی آزادی کے ہیروز

تقریباً دو سو برسوں تک بھارت پر انگریزوں کا راج رہا جو ظلم و جبر سے بھرا ہوا تھا۔ اس دوران انگریز 1857 میں پہلی جنگِ آزادی سمیت تقریباً ہر بغاوت کو دبانے میں کامیاب رہے۔

fight to Britishers
fight to Britishers
author img

By

Published : Sep 5, 2021, 12:08 AM IST

Updated : Sep 5, 2021, 10:38 AM IST

تاہم اطہر گڑھ کے قبائلی انگریزوں کے خلاف جدوجہد کررہے تھے۔ اس لڑائی کے مرکزی ہیروز میں پرتھوی راج چوہان کے نسلی وارث اور سنبل پور کے راجا سُریندر سائی اور سوناکھن کے زمیندار ویر نارائن سنگھ شامل ہیں۔ اطہر گڑھ کے باشندوں کے لیے جنگلاتی پیداوار کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ یہاں کی زمین بھی بہت زرخیز تھی۔ اٹھارہویں صدی کا اطہر گڑھ، موجودہ مشرقی چھتیس گڑھ اور مغربی اُڑیسہ میں شامل ہے۔

انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ

چونکہ بھارت اپنی خودارادیت کے لیے لڑتا رہا، 1757 میں پلاسی کی جنگ نے انگریزوں کو بنگال کا غیر متنازعہ حاکم بنادیا اور 1818 تک انگریزوں نے بھارت کے تقریباً ہر علاقے پر قبضہ کرلیا سوائے اطہر گڑھ کے جو انگریزوں کی پہنچ سے دور رہا۔ تاہم انگریزوں نے اس پر قبضہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

سمبل پور کے تخت پر سُریندر سائی کی جگہ آنجہانی راجا مہاراج سائی کی بیوی رانی موہن کماری کو بٹھایا گیا۔ اس اقدام کی اطہر گڑھ کے بادشاہوں اور زمینداروں نے مخالفت کی جس کے بعد سریندر سائی، ان کے بھائی اُدنت سنگھ اور چچا بلرام سنگھ کو گرفتار کرکے ہزاری باغ جیل بھیج دیا گیا۔

سریندر سائی اور ان کے خاندان کے افراد کی گرفتاری کے بعد بھی بغاوت جاری رہی۔ اور جس وقت علاقے میں قحط پڑا تو سوناکھن کے بِنجھاور زمیندار نارائن سنگھ نے 1856 میں گودام کے تالے توڑ کر لوگوں میں اناج تقسیم کردیا جس کے بعد انہیں گرفتار کرکے رائے پور جیل میں بند کردیا گیا۔

لیکن کچھ ہی دنوں میں نارائن سنگھ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور 30 ​​جولائی 1857 کو بھارتی فوجیوں نے ہزاری باغ جیل کا دروازہ توڑ کر سُریندر سائی اور ان کے ساتھیوں کو فرار ہونے میں مدد کی۔ فرار ہونے کے بعد انہیں سَرن گڑھ کے راجا سنگرام سنگھ کے محل میں پناہ ملی۔

سریندر سائی کو پکڑنے میں ناکام برطانوی حکام نے سفارتی رخ اختیار کیا۔ ستمبر 1861 میں سنبل پور اور کٹک کی جیلوں میں قید باغیوں کو رہا کردیا گیا۔ 22 نومبر 1862 کو گورنر، جنرل ایل گِن نے برطانوی وزیر خارجہ کو لندن میں مطلع کیا کہ سُریندر سائی نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔

اس کے بعد اطہر گڑھ کے راجاؤں اور زمینداروں نے انگریزوں کے وعدوں کی تکمیل کا انتظار شروع کردیا۔ تاہم انگریزوں نے انتظامی ڈھانچہ تبدیل کیا اور وعدوں سے مکر گئے جس کے بعد سریندر سائی نے ایک بار پھر مسلح بغاوت کا منصوبہ بنایا۔ انگریزوں کو جب اس کا علم ہوا تو سریندر سائی کو گرفتار کرکے مدھیہ پردیش میں کھنڈوا کے قریب اسیر گڑھ کے قلعے میں قید کردیا جہاں 17 سال تک قید میں رہنے کے بعد ان کی موت ہوئی۔

سریندر سائی کی طرح انگریزوں نے سوناکھن کے زمیندار نارائن سنگھ کو گرفتار کرنے کے لیے گاؤں والوں کو ہراساں کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ گاؤں کو آگ لگادی۔

اپنے پیاروں پر ظلم دیکھ کر ویر نارائن سنگھ نے ہتھیار ڈال دیے۔ 5 دسمبر 1857 کو انہیں رائے پور میں ڈپٹی کمشنر ایلیٹ کے حوالے کیا گیا اور رائے پور میں ہی انہیں سزائے موت سنائی گئی۔

موجودہ نسل آزادی کے اُن ہیروز کے بارے میں بہت کم جانتی ہے جو تاریخ کے صفحات میں کہیں کھوگئے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس خطے کے بادشاہوں اور زمینداروں نے انگریزوں کو یہ احساس دلایا تھا کہ وہ اتنی آسانی سے غلام بننے والے نہیں ہیں۔

تاہم اطہر گڑھ کے قبائلی انگریزوں کے خلاف جدوجہد کررہے تھے۔ اس لڑائی کے مرکزی ہیروز میں پرتھوی راج چوہان کے نسلی وارث اور سنبل پور کے راجا سُریندر سائی اور سوناکھن کے زمیندار ویر نارائن سنگھ شامل ہیں۔ اطہر گڑھ کے باشندوں کے لیے جنگلاتی پیداوار کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ یہاں کی زمین بھی بہت زرخیز تھی۔ اٹھارہویں صدی کا اطہر گڑھ، موجودہ مشرقی چھتیس گڑھ اور مغربی اُڑیسہ میں شامل ہے۔

انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ

چونکہ بھارت اپنی خودارادیت کے لیے لڑتا رہا، 1757 میں پلاسی کی جنگ نے انگریزوں کو بنگال کا غیر متنازعہ حاکم بنادیا اور 1818 تک انگریزوں نے بھارت کے تقریباً ہر علاقے پر قبضہ کرلیا سوائے اطہر گڑھ کے جو انگریزوں کی پہنچ سے دور رہا۔ تاہم انگریزوں نے اس پر قبضہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

سمبل پور کے تخت پر سُریندر سائی کی جگہ آنجہانی راجا مہاراج سائی کی بیوی رانی موہن کماری کو بٹھایا گیا۔ اس اقدام کی اطہر گڑھ کے بادشاہوں اور زمینداروں نے مخالفت کی جس کے بعد سریندر سائی، ان کے بھائی اُدنت سنگھ اور چچا بلرام سنگھ کو گرفتار کرکے ہزاری باغ جیل بھیج دیا گیا۔

سریندر سائی اور ان کے خاندان کے افراد کی گرفتاری کے بعد بھی بغاوت جاری رہی۔ اور جس وقت علاقے میں قحط پڑا تو سوناکھن کے بِنجھاور زمیندار نارائن سنگھ نے 1856 میں گودام کے تالے توڑ کر لوگوں میں اناج تقسیم کردیا جس کے بعد انہیں گرفتار کرکے رائے پور جیل میں بند کردیا گیا۔

لیکن کچھ ہی دنوں میں نارائن سنگھ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور 30 ​​جولائی 1857 کو بھارتی فوجیوں نے ہزاری باغ جیل کا دروازہ توڑ کر سُریندر سائی اور ان کے ساتھیوں کو فرار ہونے میں مدد کی۔ فرار ہونے کے بعد انہیں سَرن گڑھ کے راجا سنگرام سنگھ کے محل میں پناہ ملی۔

سریندر سائی کو پکڑنے میں ناکام برطانوی حکام نے سفارتی رخ اختیار کیا۔ ستمبر 1861 میں سنبل پور اور کٹک کی جیلوں میں قید باغیوں کو رہا کردیا گیا۔ 22 نومبر 1862 کو گورنر، جنرل ایل گِن نے برطانوی وزیر خارجہ کو لندن میں مطلع کیا کہ سُریندر سائی نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔

اس کے بعد اطہر گڑھ کے راجاؤں اور زمینداروں نے انگریزوں کے وعدوں کی تکمیل کا انتظار شروع کردیا۔ تاہم انگریزوں نے انتظامی ڈھانچہ تبدیل کیا اور وعدوں سے مکر گئے جس کے بعد سریندر سائی نے ایک بار پھر مسلح بغاوت کا منصوبہ بنایا۔ انگریزوں کو جب اس کا علم ہوا تو سریندر سائی کو گرفتار کرکے مدھیہ پردیش میں کھنڈوا کے قریب اسیر گڑھ کے قلعے میں قید کردیا جہاں 17 سال تک قید میں رہنے کے بعد ان کی موت ہوئی۔

سریندر سائی کی طرح انگریزوں نے سوناکھن کے زمیندار نارائن سنگھ کو گرفتار کرنے کے لیے گاؤں والوں کو ہراساں کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ گاؤں کو آگ لگادی۔

اپنے پیاروں پر ظلم دیکھ کر ویر نارائن سنگھ نے ہتھیار ڈال دیے۔ 5 دسمبر 1857 کو انہیں رائے پور میں ڈپٹی کمشنر ایلیٹ کے حوالے کیا گیا اور رائے پور میں ہی انہیں سزائے موت سنائی گئی۔

موجودہ نسل آزادی کے اُن ہیروز کے بارے میں بہت کم جانتی ہے جو تاریخ کے صفحات میں کہیں کھوگئے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس خطے کے بادشاہوں اور زمینداروں نے انگریزوں کو یہ احساس دلایا تھا کہ وہ اتنی آسانی سے غلام بننے والے نہیں ہیں۔

Last Updated : Sep 5, 2021, 10:38 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.