آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اترپردیش) نے کاس گنج ضلع میں 22 سالہ الطاف ولد چاند میاں کی موت کو قتل قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ اے آئی ایم آئی ایم کا دعویٰ ہے کہ پولیس انکاونٹر اور حراستی موت کے نام پر بے گناہ مسلمانوں، دلتوں اور آدیواسیوں کے بے دریغ قتل میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
اے آئی ایم آئی ایم کا کہنا ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے قانون کی حکمرانی اور پولیس کے ضابطہ اخلاق کا مذاق اڑاتے ہوئے 'ٹھوک دیں گے' کا اعلان کیا اور اس طرح پولیس کو قتل کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ اس سے قبل اسد الدین اویسی نے بلرام پور میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ یوپی پولیس نے جتنے بھی لوگوں کا انکاؤنٹر کیا ہے، ان میں سے 37 فیصد مسلمان تھے۔
اے آئی ایم آئی ایم اس معاملے کی ہائی کورٹ کے موجودہ جج کی نگرانی میں عدالتی جانچ کرانے اور متوفی الطاف کے گھر والوں کو معقول معاوضہ اور سرکاری ملازمت دینے کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ الطاف کے قتل میں ملوث تمام متعلقہ افسران پر قتل کا کیس چلایا جائے۔
مزید پڑھیں:۔ نکیتا تومر قتل کیس، دو ملزم قصوار قرار، ایک بری
پولیس کے مطابق کاس گنج کے صدر کوتوالی میں ایک نابالغ لڑکی کے بھاگنے کے معاملے میں اہرولی کے رہنے والے 22 سالہ الطاف کو پولس پوچھ گچھ کے لیے لے گئی تھی۔ اس دوران پولیس اہلکار ملزم کو بیت الخلا لے گئے۔ نوجوان کافی دیر تک بیت الخلا سے باہر نہیں آیا تو پولیس اہلکار نے اندر جا کر دیکھا کہ الطاف نے جیکٹ میں لگی ڈوری کو پائپ میں باندھ کر پھانسی لگا لی تھی۔ پولس اہلکاروں نے فوراً نوجوان کی گردن سے ڈور کھولی اور اسے اشوک نگر واقع اسپتال لے جایا گیا۔ یہاں علاج کے دوران ڈاکٹرز نے الطاف کو مردہ قرار دے دیا۔ پولیس نے لاش کا پنچنامہ بھرنے کے بعد لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے بھیج دیا۔
اس کے ساتھ ہی کاس گنج کے ایس پی روہن پرمود بوترے نے اس پورے معاملے میں لاپرواہی برتنے پر صدر کوتوال وریندر سنگھ اندولیا، سب انسپکٹر وکاس کمار، سب انسپکٹر چندریش گوتم، ہیڈ مہرر دھنیندر سنگھ، کانسٹیبل سورو سولنکی کو فوری طور پر معطل کر دیا ہے۔ ایس پی نے کہا کہ پورے معاملے کی گہرائی سے جانچ کی جا رہی ہے۔