ETV Bharat / bharat

کلیان سنگھ کی زندگی اور ان کا سیاسی سفر

اتر پردیش کے سابق وزیر اعلی کے طورپر کلیان سنگھ سخت گیر ہندوتوا نظریات کے حامل رہنما تھے۔ کلیان سنگھ کو بابری مسجد کے انہدام میں ان کے کلیدی کردار کے لیے جانا جاتا ہے۔

کلیان سنگھ کی زندگی اور ان کا سیاسی سفر
کلیان سنگھ کی زندگی اور ان کا سیاسی سفر
author img

By

Published : Aug 22, 2021, 7:42 AM IST

Updated : Aug 22, 2021, 11:58 AM IST

آر ایس ایس کے نچلی سطح کے کارکن سے لے کر ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے اعلی عہدوں پر فائز رہنے والے کلیان سنگھ کی زندگی اور ان کا سیاسی سفر تنازعات اور پُرتشدد واقعات سے پُر ہے۔ خاص طور سے بابری مسجد کے انہدام میں ان کا نمایاں کردار رہا۔

کلیان سنگھ جنوری 1932 کو ریاست اترپردیش کے علی گڑھ میں ایک کسان کے گھر میں پیدا ہوئے۔

اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ آر ایس ایس میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے باضابطہ طورپر سیاسی میدان کا رخ کیا۔

جن سنگھ، جنتا پارٹی اور بعد میں بی جے پی کی سیاسی اساس پر اپنی شناخت بنائی اور سخت گیر ہندوتوا کی سیاست کو اپنا محور بنایا۔

قومی سطح کی سیاست میں کلیان سنگھ نے 30 برس کی عمر میں قدم رکھا۔ جن سنگھ نے انہیں علی گڑھ کے اتراولی حلقہ سے رکن اسمبلی کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا۔ حالانکہ انہیں اس مقابلہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم انہوں نے اپنا سیاسی سفر جاری رکھا۔

1967 میں کانگریس کے خلاف اپنی پہلی جیت درج کی۔ ان کی جیت کا سلسلہ اگلے تیرہ برسوں تک جاری رہا۔

1980 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے امیدوار انور خان سے وہ شکست کھائے۔ تاہم کلیان سنگھ 1985 میں پھر سے واپس آئے اور 2004 تک انتخابی سیاست میں سرگرم رہے۔

بابری مسجد کے انہدام میں کلیان سنگھ کا کلیدی کردار

1991 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے ریاست اترپردیش کی 221 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

اگلے برس 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد منہدم کر دی گئی۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد کلیان سنگھ نے اخلاقی ذمہ داری قبول کی اور اس واقعے کے چند گھنٹوں بعد اپنے عہدہ سے استعفیٰ دینے کی پیش کش کی۔ حالانکہ ان کی حکومت کو برطرف کر کے ریاست میں صدر راج نافذ کر دیا گیا۔

بابری مسجد کے انہدام کے بعد پورے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے جن میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔ بعد کے ایام میں کلیان سنگھ نے بابری مسجد کے انہدام میں اپنا کردار تسلیم کرتے ہوئے اس پر فخر کا اظہار بھی کیا۔

اس کے بعد 1993 میں دوبارہ اسمبلی انتخابات ہوئے۔ کلیان سنگھ 1993 کے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں اتراولی اور کاس گنج سے ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ بی جے پی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری لیکن وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے اتحاد کر کے حکومت بنائی۔ کلیان سنگھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بن گئے۔

بہرحال، 'گیسٹ ہاؤس' واقعہ کے بعد ایس پی اور بی ایس پی کی مخلوط حکومت چار سال میں ختم ہوگئی۔

گیسٹ ہاؤس واقعہ کے بعد اسمبلی انتخابات کے انعقاد میں صرف ایک سال باقی تھا۔ مگر بی جے پی نے بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنائی۔

دونوں جماعتوں کے معاہدہ کے بعد بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے پہلے چھ ماہ کے لئے وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف لیا۔ تاہم جب کلیان سنگھ بقیہ مدت کے لئے وزیر اعلی بننے کی تیاریوں میں تھے تو اختلافات کی بنا پر بی ایس پی نے حمایت واپس لے لی اور اس طرح چھ ماہ کے بعد بی جے پی اور بی ایس پی اتحادی حکومت گر گئی۔

اس کے بعد کلیان سنگھ نے کانگریس پارٹی کے سابق رکن اسمبلی نریش اگروال کو اعتماد میں لیا۔

نریش اگروال نے اپنی لوکاتنترک کانگریس پارٹی تشکیل دی اور تقریبا21 ارکان اسمبلی کو اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوئے۔ نریش کی حمایت سے بی جے پی کی حکومت بنی اور کلیان سنگھ نے اپنی حکومت میں انہیں توانائی کی وزارت سے نوازا۔

کلیان سنگھ کو بی جے پی چھوڑنی پڑی

نوے کی دہائی کے آخر میں کلیان سنگھ کی مرکزی قیادت بالخصوص اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہونے کی خبریں میڈیا میں آنے لگیں۔ کلیان سنگھ کو دسمبر 1999 میں پارٹی چھوڑنی پڑی۔

پانچ سال بعد جنوری 2004 میں وہ پھر سے زعفرانی پارٹی میں شامل ہو ئے۔ بلند شہر سے رکن پارلیمنٹ کے امیدوار کے طور پر انہیں میدان میں اتارا گیا۔

2009 میں انہوں نے ایک بار پھر اندرونی اختلافات کے سبب بی جے پی کو خیرباد کہہ دیا۔ اسی سال اتر پردیش کے ایٹا سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے لوک سبھا کے انتخاب میں اپنی قسمت آزمائی کی اور جیت گئے۔ بعد میں انہوں نے اپنی پارٹی جن کرانتی پارٹی (راشٹروادی) تشکیل دی۔

مزید پڑھیں:اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کا انتقال

2014 کے لوک سبھا انتخابات کے وقت اس وقت کے سابق بی جے پی صدر نتن گڈکری کی کوششوں کے بعد کلیان سنگھ نے اپنی پارٹی جے کے پی (آر) کو بی جے پی میں ضم کردیا۔

اس کے بعد بی جے پی نے انہیں اسی سال 26 اگست کو راجستھان کے گورنر کے عہدے پر فائز کیا۔ جنوری 2015 میں انہیں ہماچل پردیش کے گورنر کی حیثیت سے ایک اضافی چارج دیا گیا تھا۔ فی الحال وہ فعال سیاست سے دور تھے۔

آر ایس ایس کے نچلی سطح کے کارکن سے لے کر ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے اعلی عہدوں پر فائز رہنے والے کلیان سنگھ کی زندگی اور ان کا سیاسی سفر تنازعات اور پُرتشدد واقعات سے پُر ہے۔ خاص طور سے بابری مسجد کے انہدام میں ان کا نمایاں کردار رہا۔

کلیان سنگھ جنوری 1932 کو ریاست اترپردیش کے علی گڑھ میں ایک کسان کے گھر میں پیدا ہوئے۔

اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ آر ایس ایس میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے باضابطہ طورپر سیاسی میدان کا رخ کیا۔

جن سنگھ، جنتا پارٹی اور بعد میں بی جے پی کی سیاسی اساس پر اپنی شناخت بنائی اور سخت گیر ہندوتوا کی سیاست کو اپنا محور بنایا۔

قومی سطح کی سیاست میں کلیان سنگھ نے 30 برس کی عمر میں قدم رکھا۔ جن سنگھ نے انہیں علی گڑھ کے اتراولی حلقہ سے رکن اسمبلی کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا۔ حالانکہ انہیں اس مقابلہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم انہوں نے اپنا سیاسی سفر جاری رکھا۔

1967 میں کانگریس کے خلاف اپنی پہلی جیت درج کی۔ ان کی جیت کا سلسلہ اگلے تیرہ برسوں تک جاری رہا۔

1980 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے امیدوار انور خان سے وہ شکست کھائے۔ تاہم کلیان سنگھ 1985 میں پھر سے واپس آئے اور 2004 تک انتخابی سیاست میں سرگرم رہے۔

بابری مسجد کے انہدام میں کلیان سنگھ کا کلیدی کردار

1991 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے ریاست اترپردیش کی 221 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

اگلے برس 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد منہدم کر دی گئی۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد کلیان سنگھ نے اخلاقی ذمہ داری قبول کی اور اس واقعے کے چند گھنٹوں بعد اپنے عہدہ سے استعفیٰ دینے کی پیش کش کی۔ حالانکہ ان کی حکومت کو برطرف کر کے ریاست میں صدر راج نافذ کر دیا گیا۔

بابری مسجد کے انہدام کے بعد پورے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے جن میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔ بعد کے ایام میں کلیان سنگھ نے بابری مسجد کے انہدام میں اپنا کردار تسلیم کرتے ہوئے اس پر فخر کا اظہار بھی کیا۔

اس کے بعد 1993 میں دوبارہ اسمبلی انتخابات ہوئے۔ کلیان سنگھ 1993 کے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں اتراولی اور کاس گنج سے ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ بی جے پی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری لیکن وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے اتحاد کر کے حکومت بنائی۔ کلیان سنگھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بن گئے۔

بہرحال، 'گیسٹ ہاؤس' واقعہ کے بعد ایس پی اور بی ایس پی کی مخلوط حکومت چار سال میں ختم ہوگئی۔

گیسٹ ہاؤس واقعہ کے بعد اسمبلی انتخابات کے انعقاد میں صرف ایک سال باقی تھا۔ مگر بی جے پی نے بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنائی۔

دونوں جماعتوں کے معاہدہ کے بعد بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے پہلے چھ ماہ کے لئے وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف لیا۔ تاہم جب کلیان سنگھ بقیہ مدت کے لئے وزیر اعلی بننے کی تیاریوں میں تھے تو اختلافات کی بنا پر بی ایس پی نے حمایت واپس لے لی اور اس طرح چھ ماہ کے بعد بی جے پی اور بی ایس پی اتحادی حکومت گر گئی۔

اس کے بعد کلیان سنگھ نے کانگریس پارٹی کے سابق رکن اسمبلی نریش اگروال کو اعتماد میں لیا۔

نریش اگروال نے اپنی لوکاتنترک کانگریس پارٹی تشکیل دی اور تقریبا21 ارکان اسمبلی کو اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوئے۔ نریش کی حمایت سے بی جے پی کی حکومت بنی اور کلیان سنگھ نے اپنی حکومت میں انہیں توانائی کی وزارت سے نوازا۔

کلیان سنگھ کو بی جے پی چھوڑنی پڑی

نوے کی دہائی کے آخر میں کلیان سنگھ کی مرکزی قیادت بالخصوص اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہونے کی خبریں میڈیا میں آنے لگیں۔ کلیان سنگھ کو دسمبر 1999 میں پارٹی چھوڑنی پڑی۔

پانچ سال بعد جنوری 2004 میں وہ پھر سے زعفرانی پارٹی میں شامل ہو ئے۔ بلند شہر سے رکن پارلیمنٹ کے امیدوار کے طور پر انہیں میدان میں اتارا گیا۔

2009 میں انہوں نے ایک بار پھر اندرونی اختلافات کے سبب بی جے پی کو خیرباد کہہ دیا۔ اسی سال اتر پردیش کے ایٹا سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے لوک سبھا کے انتخاب میں اپنی قسمت آزمائی کی اور جیت گئے۔ بعد میں انہوں نے اپنی پارٹی جن کرانتی پارٹی (راشٹروادی) تشکیل دی۔

مزید پڑھیں:اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کا انتقال

2014 کے لوک سبھا انتخابات کے وقت اس وقت کے سابق بی جے پی صدر نتن گڈکری کی کوششوں کے بعد کلیان سنگھ نے اپنی پارٹی جے کے پی (آر) کو بی جے پی میں ضم کردیا۔

اس کے بعد بی جے پی نے انہیں اسی سال 26 اگست کو راجستھان کے گورنر کے عہدے پر فائز کیا۔ جنوری 2015 میں انہیں ہماچل پردیش کے گورنر کی حیثیت سے ایک اضافی چارج دیا گیا تھا۔ فی الحال وہ فعال سیاست سے دور تھے۔

Last Updated : Aug 22, 2021, 11:58 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.