اترپردیش کے دارلحکومت لکھنؤ کے آل انڈیا کیفی اعظمی اکیڈیمی میں کیفی اعظمی کے یوم پیدائش کے موقع 'کیفی اعظمی کا نثری امتیاز' عنوان پر سمینار منعقد کیا گیا، جس کی صدارت پروفیسر شارب ردولوی نے کی۔
- کیفی اعظمی کی طالب علمانہ زندگی:
پروفیسر علی احمد فاطمی نے بتایا کہ 'کیفی اعظمی مدرسہ کے سخت قوانین کے خلاف تھے اسی لئے انہوں نے طلبا کی ایک انجمن بنائی۔ اس انجمن کو توڑنے کے لئے مدرسہ انتظامیہ نے بڑی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ کیفی اعظمی نے طلبا کے سامنے زوردار تقریریں کرتے تھے'۔
انھوں نے کہا کہ 'ترقی پسند شعرا میں فیض، علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی سبھی باغی اور سرکش اپنے گھر ہی سے ہوئے۔ یہ سبھی سماج میں پھیلی ناانصافی کو ختم کرنے کے لئے تاعمر کوشاں رہیں'۔
- 'کیفی کی نثر تخلیقی تھی'
اردو دنیا کے معروف محقق و نقاد پروفیسر شارب ردولوی نے کہا کہ 'بنیادی چیز شاعری اور نثر نہیں ہے بلکہ بنیادی چیز کسی شخص کی 'تخلیقیت' ہے۔ کیفی پر اتنی گفتگو ہم لوگ نہیں کر پاتے، اگر ان کی نثر 'تخلیقی نثر' نہیں ہوتی'۔
پروفیسر شارب ردولوی نے بتایا کہ 'کیفی اعظمی ایک تخلیقی نثر نگار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس میں داستانوں کا، حالات کا، سیاست کا اور روز مرہ کی زندگی میں ہونے والے تمام عناصر کا حوالہ دیا ہے'۔
- نثر و نظم کا امتزاج:
اس موقع پر پروفیسر عباس رضا نیر نے بات چیت کے دوران بتایا کہ 'آج کے سمینار کی خصوصیات یہ ہے کہ پوری دنیا میں کیفی اعظمی کی نظم، نغمہ اور شاعری کے حوالوں سے سمینار منعقد کئے جاتے ہیں لیکن آج ان کے یوم پیدائش کے موقع کیفی اعظمی کے 'نثر' کے حوالے سے سمینار منعقد کیا گیا ہے'۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں اطہر حسین 'کیفی' کی پیدائش 14 جنوری 1919 کو زمیندار گھرانے میں ہوئی۔
- مزید پڑھیں: کیفی اعظمی کی 102 ویں سالگرہ پر خراج عقیدت
کیفی اعظمی نے متعدد فلموں کے لیے نغمے لکھے، لیکن ان کی ایک فلم 'ہیر رانجھا' بیحد مقبول ہوئی۔ اسی فلم کے بعد دنیا نے کیفی اعظمی کی شاعری کا لوہا مانا۔ ان کی یہ فلم اپنے آپ میں شعری مجموعہ بن گئی جسے بھارتیہ سنیما کی تاریخ میں اپنی ایک منفرد شناخت حاصل ہے۔ کیفی اعظمی کی آج 102 ویں سالگرہ ہے۔