بنگلور: دہلی وقف بورڈ کی 123 جائیدادوں سے متعلق جاری تنازع پر سابق مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور اوقاف و حج ڈاکٹر کے رحمان خان نے ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب دہلی کا قیام عمل لایا جارہا تھا، تو اس وقت حکومت کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں کو تحویل میں کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اندرا گاندھی کے دور اقتدار میں برنی کمیٹی کو تشکیل دیا گیا تھا اور اس کی رپورٹ کے مطابق 400 جائیدادوں کو اپنے تحویل میں لیا گیا تھا جن میں 123 جائیدادیں بشمول درگاہیں، مساجد و قبرستانیں ہیں، انہیں اوقافی نوعیت کی جائیداد قرار دیکر وقف بورڈ کو 99 سالوں کی لیز پر دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ان اوقافی جائیدادوں کی نشاندہی نہیں کی جاسکی تھی، اسی لئے ان جائیدادوں کو وقف بورڈ کو معمولی رقم پر لیز پر دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران وشوہ ہندو پریشد کی جانب سے معاملے کو عدالت میں لے جایا گیا تھا جو کہ 20 سالوں تک زیر التوی رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب وہ مرکز میں سن 2012 میں اقلیتی امور و اوقافی وزارت کی ذمہ داری ادا کر رہے تھے تو انہوں نے سن 2014 میں مذکورہ 123 اوقافی نوعیت کی جائیدادوں کی نشاندہی کا کام کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ 123 اوقافی جائیدادوں کو اس وقت کی مرکزی حکومت کی جانب سے بطور تحفہ نہیں دیا گیا تھا، بلکہ انہیں نشانزد کیا گیا تھا، جس کے بعد یہ جائیدادیں حکومت کی ملکیت نہیں رہیں، لہذا ان جائیدادوں پر مرکزی حکومت کا قبضہ کیا جانا غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں دہلی ووف بورڈ نے لاپرواہی کی ہے، لہٰذا ان جائیدادوں کے تحفظ کے لئے اب قانون کا سہارا لیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں:۔ Delhi Waqf Properties مسلم جائیدادوں پر مرکز کو قبضہ نہیں کرنے دیا جائے گا: امانت اللہ خان
واضح رہے کہ حال ہی میں مرکزی حکومت کی منسٹری آف ہاؤسنگ اینڈ اربن افیئرس کے لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایل اینڈ ڈی او) کی جانب سے ایک دو رکنی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر دہلی وقف بورڈ کی 123 جائیدادوں بشمول مساجد، درگاہوں اور قبرستانوں پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں دہلی وقف بورڈ کی جانب سے کہا گیا کہ سن 1970، 1974، 1976 اور 1984 میں کئے گئے چار سروے کے ذریعے ان جائیدادوں کی واضح حد بندی کی گئی تھی اور بعد میں صدر جمہوریہ نے ان کی منظوری دی تھی کہ یہ وقف املاک ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ مرکز کے پاس بورڈ کو جائیدادوں سے برخاست کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔