اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کے ایک مطالعے میں کہا گیا ہے کہ رواں سال جنوری تک چین، پاکستان اور بھارت کے پاس بالترتیب 350، 165 اور 156 جوہری وار ہیڈس ہیں اور یہ تینوں ممالک اپنے جوہری ہتھیاروں میں توسیع کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اور پاکستان کے پاس بھارت سے زیادہ جوہری ہتھیار ہے۔ تاہم بھارت بھی مسلسل جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں توسیع کر رہا ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق روس اور امریکہ کے پاس تقریباً 13،080 جوہری ہتھیار ہے جو عالمی ہتھیاروں کا تقریباً 90 فیصد ہے۔
ایس آئی پی آر آئی کے مطالعے کے مطابق چین، پاکستان اور بھارت کے پاس گذشتہ سال جنوری تک بالترتیب 320، 160 اور 150 ایٹمی وار ہیڈس تھے۔ دنیا میں نو ممالک ہیں جن کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں: امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا۔ تاہم اسرائیل نے اسے حکومتی سطح پر ظاہر نہیں کیا ہے۔
اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ "چین اپنے جوہری ہتھیاروں کی انوینٹری کی نمایاں جدید کاری اور توسیع کے وسط میں ہے، اور بھارت اور پاکستان بھی اپنے جوہری ہتھیاروں میں توسیع کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔"
5 مئی 2020 کو مشرقی لداخ میں بھارت اور چین کی افواج کے مابین فوجی تصادم کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے، اس دوران 45 سالوں میں پہلی بار دونوں اطراف ہلاکتیں ہوئیں۔
بھارت اور چین نے پینگونگ جھیل کے علاقے میں کشدگی کم کرنے کے حصول میں محدود پیشرفت کی ہے۔ دیگر مقامات پر بھی اسی طرح کے اقدامات کے لئے بات چیت تعطل کا شکار ہے۔
بھارت اور پاکستان نے رواں سال 25 فروری کو لائن آف کنٹرول کے مابین جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا، جس کے بعد دونوں ممالک کے ڈائریکٹرز جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔
اس میں بیان کیا گیا "بھارت اور پاکستان کی حکومتیں اپنے میزائل تجربوں میں سے کچھ کے بارے میں بیانات دیتی ہیں لیکن ان کے (جوہری) ہتھیاروں کی حیثیت یا سائز کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کرتی ہیں۔
اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ نے اپنے جوہری ہتھیاروں میں استعمال کے لئے ایچ ای یو اور پلوٹونیم دونوں تیار کیے ہیں۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی عرب، بھارت، مصر، آسٹریلیا اور چین 2016 سے 2020 کے درمیان دنیا میں بڑے ہتھیاروں کے پانچ سب سے بڑے درآمد کنندہ تھے۔