گذشتہ سال ملک میں کورونا کا پھیلاؤ شروع ہونے کے ساتھ ہی دہلی کے مرکز میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز معاملہ سامنے آیا تھا۔ کورونا کے دور میں تبلیغی جماعت کے حوالے سے میڈیا کی کوریج کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ہے جس میں منفی، نفرت آمیز اور جھوٹی رپورٹوں پر مبنی کوریج کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے داخل کی گئی اس عرضی پر عدالت عظمی میں آج سنوائی ہوئی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے نے کہا کہ غیر جانبدار اور سچی رپورٹنگ کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن دوسروں کو پریشان کرنے کے لیے ایسا کرنا بڑا مسئلہ ہے۔ عدالت عظمی نے کہا کہ اکسانے والی میڈیا کوریج پر کنٹرول ہونا چاہیے۔
تبلغی جماعت کے حوالے میڈیا کی کوریج کے معاملے کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا کی صدارت والی بنچ کر رہی ہے۔ اس سے پہلے اس معاملے میں 29 اکتوبر کو سماعت ہوئی تھی۔
اس سے قبل حال ہی میں مرکزی حکومت کی جانب سے اس معاملے میں سپریم کورٹ میں تیسرا حلف نامہ داخل کیا گیا تھا۔ تیسرے حلف نامے سے پہلے داخل کیے گئے دو حلف ناموں پر چیف جسٹس آف انڈیا نے شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔
عرضی گذار اور جمعیۃ علماء کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے الزام عائد کیا ہے کہ مرکزی حکومت بعض نیوز چینلوں (گودی میڈیا) کو بچانا چاہتی ہے جنہوں نے منافرت پر مبنی رپورٹنگ کی تھی نیز مرکزی حکومت نے اس کے حامی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو کارروائی سے بچانے کے لیے عدالت میں دو مرتبہ ایسا حلف نامہ داخل کیا تھا جس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے سرزنش کی تھی۔ مزید یہ کہ جمعیۃ علماء ہند پر غیر مصدقہ خبروں کی بنیاد پر پٹیشن داخل کرنے کا بے بنیاد الزام بھی لگایا تھا۔
واضح رہے کہ تبلیغی جماعت معاملے میں نفرت آمیز میڈیا کوریج کے خلاف جمعیۃ علماء کی جانب سے گزشتہ سال 6 اپریل کو یہ پٹیشن داخل کی گئی تھی۔