مشہور شاعر ڈاکٹر محمد اعظم 1963 میں اتر پردیش کے بلیا ضلع امداری گاؤں میں پیدا ہوئے اور وہیں انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنی آگے کی تعلیم بیگو سرائے میں پوری کی اور بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ڈاکٹر اعظم نے یونانی پیتھی میں گولڈ میڈل کے ساتھ ڈگری حاصل کر اپنی نوکری ریاست مدھیہ پردیش میں شروع کی۔
وہیں جب ہم ڈاکٹر اعظم کی شاعری کی ابتدا کی بات کریں تو انہوں نے اسکول کے وقت سے ہی شاعری شروع کر دی تھی لیکن والد صاحب کو اس بات کا پتہ چلا تو ایک طرف سے آفت آگئی اور انہوں نے کہا پہلے اپنا کیریئر بناؤ اور پھر شاعری کرو۔
جس کے بعد ڈاکٹر اعظم نے اپنی پڑھائی پر دھیان دیا دیا اور اپنا کیریئر بنایا، اور وہ آج ایک بہترین شاعر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کے طور پر اچھی شناخت بنائی۔
2011 سے انہوں نے شروع کی اور ان کے شروعاتی استاد قمر بیگوسرایوی تھے اور بعد میں میں شفقت تنویر سے شاعری کے ہنر سیکھے۔
ڈاکٹر اعظم کی اب تک تین کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔
پیش ہیں چند اشعار:
اشک پر زور کچھ چلا ہی نہیں
میں نے روکا بہت رکا ہی نہیں
ذہین کہتا ہے سر جھکا لے تو
دل مگر ہے کہ مانتا ہی نہیں
بال و پر ہوں قوی تو کیا حاصل
جب اڑانوں کا حوصلہ ہی نہیں
ہائے میں نے بس غلط فہمی
وہ سنا میں نے جو کہا ہی نہیں
صرف احساس کمتری ہے تجھے
اور تو ہے کہ مانتا ہی نہیں
میں ہی میں بزم میں رہا موجود
اور میں بزم میں گیا ہی نہیں
میری غیبت میں وہ بھی ہے شامل
آج تک جن سے میں ملا ہی نہیں
جو کہ پہچان ہو میری اعظم
شعر ایسا کوئی ہوا ہی نہیں۔
مزید پڑھیں: