ETV Bharat / bharat

رشتہ دار پاکستان چلے گئے، ہمیں بھارت سے محبت تھی: منور رانا - شعری سفر اور حالات زندگی

ای ٹی وی بھارت اردو کی پیشکش 'ایک شاعر' کے تحت منور رانا نے خاص بات چیت کرتے ہوئے اپنے شعری سفر اور حالات زندگی کے بارے میں اہم واقعات بتائے۔ انکے مطابق خوشگوار اور ناخوشگوار حالات میں بھی انہوں نے مشاعروں اور شعر و شاعری کا دامن نہیں چھوڑا۔

شاعر منور رانا سے ان کی ادبی و شاعری زندگی پر خصوصی گفتگو
شاعر منور رانا سے ان کی ادبی و شاعری زندگی پر خصوصی گفتگو
author img

By

Published : Sep 21, 2021, 8:48 AM IST

Updated : Sep 21, 2021, 10:13 AM IST

اردو زبان و ادب و شاعری کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر منور رانا کو ادبی و شعری حوالے سے خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔

وہیں اپنے بیانات کی وجہ سے وہ کئی بار تنازعات کا شکار بھی ہوئے۔ منور رانا اس وقت خوب سرخیوں میں رہے جب 2014 میں عدم روا داری کے خلاف انہوں نے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کو واپس کردیا۔

منور رانا کی پیدائش اترپردیش کے شہر رائے بریلی میں 1952 میں ہوئی ان کے بیشتر رشتہ دار تقسیم ہند کے وقت پاکستان چلے گئے تھے لیکن ان کے والد کو بھارت سے اس قدر محبت تھی کہ انہوں نے بھارت کو اپنا مسکن بنایا بعد میں ان کا خاندان کلکتہ منتقل ہو گیا اور وہیں پر ان کی ابتدائی تعلیم ہوئی ہے۔

شاعر منور رانا سے ان کی ادبی و شاعری زندگی پر خصوصی گفتگو

منور رانا کی شاعری متعدد موضوعات پر موجود ہیں تاہم ان کی غزل گوئی نے جو منفرد مقام حاصل کیا وہ کسی اور صنف کو حاصل نہیں ہوئی۔ ان کی غزلیں اردو کے علاوہ ہندی، بنگلہ اور گرومکھی میں بھی موجود ہیں ۔ منور رانا نے اردو غزل کو روایتی انداز سے ہٹاکر ایک منفرد اسلوب دیا ہے۔

ان کے اشعار میں زیادہ تر اودھی زبان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جبکہ عربی اور فارسی کے استعمال پر کم توجہ ہوئی ہے۔ منور رانا کی شاعری میں شوخی کم اور حقیقت پسندی زیادہ ہے، ماں پر لکھے گئے کلام تین زبان میں شائع ہوئے اور ان کو خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خاص انٹرویو میں منور رانا نے کہا کہ ماں کے موضوع پر لکھا گیا انکا کلام زبان زد عام ہوگیا اور اسکی خوب پزیرائی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ایک بنگالی شاعر تھا جس نے مجھ سے اردو شاعری کے حوالےسے یہ کہا تھا کہ جب بنگالی شاعری انگریزوں سے پنجہ آزمائی کرتی ہے اس وقت اردو شاعری طوائف کے کوٹھے سے اترتی ہوئی نظر آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات دل پر اس قدر اثر انداز ہوئی کہ ہم نے ماں کو اپنا موضوع سخن بنایا اور اس پاکیزہ رشتے کو اپنا محبوب بناکر اشعار لکھے جسے خوب مقبولیت ہوئی اور مجھے اطمینان بھی ہے کہ بہت سے لوگ میری شاعری پڑھ کر اپنی ماں سے محبت کرنے لگے ہیں۔

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی

اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے

منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا
جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی

برباد کر دیا ہمیں پردیس نے مگر
ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے

یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
کہ جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے

میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا

اردو، ہندی اور بنگالی زبان میں شائع ہونے والے منور رانا مشاعروں میں اپنے انداز بیان کی وجہ سے خوب پسند کئے جاتے ہیں۔

ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ان میں 1993 میں' نیم کے پھول' سن 2000 میں کہو ظل الہی سے، 2001 میں بغیر نقشے کا مکان ،2005 میں سفید جنگلی کبوتر قابل ذکر ہیں۔

2014 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ برائے اردو ادب سے نوازے گئے اور 2015 میں ایک ٹیلی ویژن کے انٹرویو کے دوران اس ایوارڈ کو واپس کرنے کا اعلان کیا۔ انہون نے ایوارڈ کے ساتھ دی گئی رقم بھی حکومت کو واپس کی۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ میرے بچے بھی حکومت کی جانب سے ملنے والے ایوارڈ کو نہیں لیں گے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے منور رانا نے بتایا کہ انکے والد کلکتہ میں ڈرائیور اور ٹرانسپورٹر تھے تاہم شعروشاعری کا جذبہ ابتدائی زمانہ سے ہی تھا۔ کلکتہ کے چھوٹے بڑے مشاعروں میں شرکت کے ساتھ ساتھ یہ جنون مزید پروان چڑھتا گیا ۔ رفتہ رفتہ بین الاقوامی مشاعروں میں بھی شرکت کی جہاں خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: ایک شاعر سیریز: یوسف رحیم سے خصوصی گفتگو

انہوں نے بتایا کہ پروفیسر مظفر حنفی انکے اہم ترین اساتذہ میں شامل ہیں جنہوں نے انگلی پکڑ کر ادبی سفر کا آغاز کرایا۔ اپنے اہم اور خاص دوست مرحوم راحت اندوری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ راحت نے مشاعروں میں خوب شہرت حاصل کی۔ منور رانا اور راحت اندوری اکثر اردو کے بڑے مشاعروں میں ایک ساتھ دیکھے جاتے تھے۔

اردو زبان و ادب و شاعری کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر منور رانا کو ادبی و شعری حوالے سے خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔

وہیں اپنے بیانات کی وجہ سے وہ کئی بار تنازعات کا شکار بھی ہوئے۔ منور رانا اس وقت خوب سرخیوں میں رہے جب 2014 میں عدم روا داری کے خلاف انہوں نے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کو واپس کردیا۔

منور رانا کی پیدائش اترپردیش کے شہر رائے بریلی میں 1952 میں ہوئی ان کے بیشتر رشتہ دار تقسیم ہند کے وقت پاکستان چلے گئے تھے لیکن ان کے والد کو بھارت سے اس قدر محبت تھی کہ انہوں نے بھارت کو اپنا مسکن بنایا بعد میں ان کا خاندان کلکتہ منتقل ہو گیا اور وہیں پر ان کی ابتدائی تعلیم ہوئی ہے۔

شاعر منور رانا سے ان کی ادبی و شاعری زندگی پر خصوصی گفتگو

منور رانا کی شاعری متعدد موضوعات پر موجود ہیں تاہم ان کی غزل گوئی نے جو منفرد مقام حاصل کیا وہ کسی اور صنف کو حاصل نہیں ہوئی۔ ان کی غزلیں اردو کے علاوہ ہندی، بنگلہ اور گرومکھی میں بھی موجود ہیں ۔ منور رانا نے اردو غزل کو روایتی انداز سے ہٹاکر ایک منفرد اسلوب دیا ہے۔

ان کے اشعار میں زیادہ تر اودھی زبان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جبکہ عربی اور فارسی کے استعمال پر کم توجہ ہوئی ہے۔ منور رانا کی شاعری میں شوخی کم اور حقیقت پسندی زیادہ ہے، ماں پر لکھے گئے کلام تین زبان میں شائع ہوئے اور ان کو خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خاص انٹرویو میں منور رانا نے کہا کہ ماں کے موضوع پر لکھا گیا انکا کلام زبان زد عام ہوگیا اور اسکی خوب پزیرائی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ایک بنگالی شاعر تھا جس نے مجھ سے اردو شاعری کے حوالےسے یہ کہا تھا کہ جب بنگالی شاعری انگریزوں سے پنجہ آزمائی کرتی ہے اس وقت اردو شاعری طوائف کے کوٹھے سے اترتی ہوئی نظر آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات دل پر اس قدر اثر انداز ہوئی کہ ہم نے ماں کو اپنا موضوع سخن بنایا اور اس پاکیزہ رشتے کو اپنا محبوب بناکر اشعار لکھے جسے خوب مقبولیت ہوئی اور مجھے اطمینان بھی ہے کہ بہت سے لوگ میری شاعری پڑھ کر اپنی ماں سے محبت کرنے لگے ہیں۔

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی

اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے

منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا
جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی

برباد کر دیا ہمیں پردیس نے مگر
ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے

یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
کہ جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے

میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا

اردو، ہندی اور بنگالی زبان میں شائع ہونے والے منور رانا مشاعروں میں اپنے انداز بیان کی وجہ سے خوب پسند کئے جاتے ہیں۔

ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ان میں 1993 میں' نیم کے پھول' سن 2000 میں کہو ظل الہی سے، 2001 میں بغیر نقشے کا مکان ،2005 میں سفید جنگلی کبوتر قابل ذکر ہیں۔

2014 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ برائے اردو ادب سے نوازے گئے اور 2015 میں ایک ٹیلی ویژن کے انٹرویو کے دوران اس ایوارڈ کو واپس کرنے کا اعلان کیا۔ انہون نے ایوارڈ کے ساتھ دی گئی رقم بھی حکومت کو واپس کی۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ میرے بچے بھی حکومت کی جانب سے ملنے والے ایوارڈ کو نہیں لیں گے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے منور رانا نے بتایا کہ انکے والد کلکتہ میں ڈرائیور اور ٹرانسپورٹر تھے تاہم شعروشاعری کا جذبہ ابتدائی زمانہ سے ہی تھا۔ کلکتہ کے چھوٹے بڑے مشاعروں میں شرکت کے ساتھ ساتھ یہ جنون مزید پروان چڑھتا گیا ۔ رفتہ رفتہ بین الاقوامی مشاعروں میں بھی شرکت کی جہاں خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: ایک شاعر سیریز: یوسف رحیم سے خصوصی گفتگو

انہوں نے بتایا کہ پروفیسر مظفر حنفی انکے اہم ترین اساتذہ میں شامل ہیں جنہوں نے انگلی پکڑ کر ادبی سفر کا آغاز کرایا۔ اپنے اہم اور خاص دوست مرحوم راحت اندوری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ راحت نے مشاعروں میں خوب شہرت حاصل کی۔ منور رانا اور راحت اندوری اکثر اردو کے بڑے مشاعروں میں ایک ساتھ دیکھے جاتے تھے۔

Last Updated : Sep 21, 2021, 10:13 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.