سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی آرگنائزیشن و دیگر کی جانب سے داخل کردہ اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو چار ہفتوں کے اندر جواب داخل کرنے کا حکم دیتے ہوئے عرضداشتوں کو سماعت کے لیے منطور کر لیا۔
اسی درمیان جمعیت علمائے ہند نے سپریم کورٹ میں مداخلت کار کی درخواست داخل کرتے ہوئے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی عدالت سے اجازت طلب کی ہے۔
ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے صدر جمعیت علمائے ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیت علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی جانب سے پٹیشن داخل کی ہے جس میں لکھا ہے کہ 'غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020 کو اترپردیش حکومت نے منظوری دے دی ہے جبکہ اتراکھنڈ حکومت نے فریڈم آف ریلیجن نامی قانون کو منظوری دی ہے۔ ان قوانین کو بنانے کا مقصد ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والی شادیوں کو روکنا ہے، جو آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔'
عرضداشت میں مزید لکھا گیا ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے مذہبی اور ذاتی آزادی پر روک لگانے کی کوشش کی گئی ہے جو غیر آئینی ہے، لہذا عدالت کو مداخلت کر کے ریاستوں کو ایسے قوانین بنانے سے روکنا چاہئے نیز جن ریاستوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں انہیں ختم کر دینا چاہئے۔
عرضداشت میں لکھا گیا ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے خود اعلان کیا ہے کہ لو جہاد کو روکنے کے لیے غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020 بنایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے لو جہاد پر قانون بنانے والی ریاستوں اور مرکز کو جاری کیے گئے نوٹس کا جواب ملنے کے بعد سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کی سماعت عمل میں آئے گی، جس دوران جمعیت علماء کی مداخلت کار کی درخواست پر فیصلہ ہوگا۔
یو این آئی