ETV Bharat / bharat

MP Assembly On BBC Documentary ایم پی اسمبلی میں بی بی سی کی متنازع دستاویزی فلم کے خلاف مذمتی تحریک منظور - بی بی سی کی متنازع دستاویزی فلم

مدھیہ پردیش اسمبلی میں بی بی سی کی متنازع دستاویزی فلم کے خلاف مذمتی تحریک منظور کر لی گئی ہے۔ وہیں کانگریس میڈیا ڈپارٹمنٹ کے صدر کے کے مشرا نے کہا کہ بی جے پی جس کو چاہتی ہے اسے ملک دشمن قرار دے دیتی ہے۔ Condemnation motion passed in mp assembly on bbc documentary

ایم پی اسمبلی میں بی بی سی کی متنازع دستاویزی فلم کے خلاف مذمتی تحریک منظور
ایم پی اسمبلی میں بی بی سی کی متنازع دستاویزی فلم کے خلاف مذمتی تحریک منظور
author img

By

Published : Mar 14, 2023, 8:48 AM IST

کانگریس کے ترجمان کے کے مشرا کا بیان

بھوپال: مدھیہ پردیش کی قانون ساز اسمبلی میں پیر کو بی بی سی کے خلاف گجرات فسادات پر مبنی دستاویزی فلم کے معاملے میں مذمتی تحریک منظور کی گئی۔ بی جے پی جماعت کی جانب سے بی بی سی کے خلاف پیش کی گئی مذمتی تحریک کو کانگریس کی حمایت نہیں ملی ہے۔ اس کے باوجود اسے مکمل اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ بی جے پی رکن اسمبلی شیلیندر جین نے ایوان سے بی بی سی کے خلاف مذمتی تحریک لانے کی اجازت مانگی تھی، اسے مدھیہ پردیش قانون ساز اسمبلی کے بجٹ اجلاس کی کارروائی کے دوران بی جے پی کے ایم ایل اے شیلیندر جین نے متعارف کرایا تھا۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ بی بی سی کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ ساتھ ہی کانگریس نے اسے جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی کارروائی قرار دیا ہے۔

بی جے پی ایم ایل اے شیلیندر جین نے کہا کہ 17 فروری 2023 کو بی بی سی نے اس قابل اعتراض دستاویزی فلم کا ایک حصہ جاری کیا تھا جس کا واحد مقصد بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی پر حملہ تھا۔ اس میں سال 2002 میں گجرات میں ہونے والے فسادات کو دکھایا گیا تھا۔ بی بی سی نے بھارت کے عدالتی اداروں کو سمجھوتہ کرنے والے اداروں کے طور پر پیش کیا، جبکہ بھارت کا عدالتی نظام اعلیٰ سے لے کر ماتحت عدالتوں تک مکمل آزادی کے ساتھ انصاف فراہم کرتا ہے۔ بی بی سی نے 24 جون 2022 کو اس موضوع پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی نظر انداز کر دیا تھا اور اسے غلط قرار دیا تھا۔ یہ اقدام بھارت کے عدالتی دائرہ اختیار کی سالمیت پر براہ راست حملہ ہے۔بی بی سی نے خود کو ایک اپیلٹ اتھارٹی ظاہر کیا ہے اور سپریم کورٹ آف انڈیا کی عدالتی صوابدید کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔بی بی سی کی دستاویزی فلم براہ راست توہین عدالت ہے کیونکہ اس میں عدالت کے استدلال اور صلاحیتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔


مزید پڑھیں:۔ Gujarat Assembly گجرات اسمبلی میں بی بی سی ڈاکیومنٹری کے خلاف غیرسرکاری قرارداد پیش

بی جے پی ایم ایل اے شیلیندر جین نے ایک غیر سرکاری قرارداد میں کہا کہ یہ ایوان اس دستاویزی فلم کے ریلیز اور ٹیلی کاسٹ کی سخت مذمت کرتا ہے اور مرکزی حکومت سے درخواست کرتا ہے کہ اس طرح کے عمل کو معاف نہ کیا جائے اور بھارت کے اندرونی معاملات میں غیر قانونی مداخلت پر بی بی سی کے خلاف کارروائی کی جائے، حالانکہ کانگریس اس کے حق میں نہیں بولی۔ ایوان میں اپوزیشن کی تعداد 96 اور حکمران جماعت کی تعداد 227 ہے، اس لیے مخالفت کے باوجود قرارداد منظور کر لی گئی۔ کانگریس کے ترجمان کے کے مشرا نے کہا کہ بی جے پی ان لوگوں سے پریشان ہے جو ملک کو تقسیم کررہے ہیں لیکن ملک میں رہنے والے 200 سے زیادہ صحافیوں کو مرکزی حکومت نے نوکری سے نکال دیا ہے، ان کا ذمہ دار کون ہے؟ بی جے پی جسے چاہے انہیں محب وطن کہہ سکتی ہے اور جسے چاہے وہ ملک دشمن کہہ سکتی ہے۔گجرات اسمبلی کے بعد مدھیہ پردیش میں بھی گجرات فسادات پر مبنی بی بی سی کی دستاویزی فلم کی مذمتی تحریک منظور کی گئی۔ غیر سرکاری قرار داد ایسی قرارداد ہے جو پاس کر کے حکومت کو بھیجی جاتی ہے۔ تاہم حکومتیں زیادہ تر غیر سرکاری قراردادوں پر کارروائی نہیں کرتی ہیں۔

کانگریس کے ترجمان کے کے مشرا کا بیان

بھوپال: مدھیہ پردیش کی قانون ساز اسمبلی میں پیر کو بی بی سی کے خلاف گجرات فسادات پر مبنی دستاویزی فلم کے معاملے میں مذمتی تحریک منظور کی گئی۔ بی جے پی جماعت کی جانب سے بی بی سی کے خلاف پیش کی گئی مذمتی تحریک کو کانگریس کی حمایت نہیں ملی ہے۔ اس کے باوجود اسے مکمل اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ بی جے پی رکن اسمبلی شیلیندر جین نے ایوان سے بی بی سی کے خلاف مذمتی تحریک لانے کی اجازت مانگی تھی، اسے مدھیہ پردیش قانون ساز اسمبلی کے بجٹ اجلاس کی کارروائی کے دوران بی جے پی کے ایم ایل اے شیلیندر جین نے متعارف کرایا تھا۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ بی بی سی کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ ساتھ ہی کانگریس نے اسے جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی کارروائی قرار دیا ہے۔

بی جے پی ایم ایل اے شیلیندر جین نے کہا کہ 17 فروری 2023 کو بی بی سی نے اس قابل اعتراض دستاویزی فلم کا ایک حصہ جاری کیا تھا جس کا واحد مقصد بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی پر حملہ تھا۔ اس میں سال 2002 میں گجرات میں ہونے والے فسادات کو دکھایا گیا تھا۔ بی بی سی نے بھارت کے عدالتی اداروں کو سمجھوتہ کرنے والے اداروں کے طور پر پیش کیا، جبکہ بھارت کا عدالتی نظام اعلیٰ سے لے کر ماتحت عدالتوں تک مکمل آزادی کے ساتھ انصاف فراہم کرتا ہے۔ بی بی سی نے 24 جون 2022 کو اس موضوع پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی نظر انداز کر دیا تھا اور اسے غلط قرار دیا تھا۔ یہ اقدام بھارت کے عدالتی دائرہ اختیار کی سالمیت پر براہ راست حملہ ہے۔بی بی سی نے خود کو ایک اپیلٹ اتھارٹی ظاہر کیا ہے اور سپریم کورٹ آف انڈیا کی عدالتی صوابدید کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔بی بی سی کی دستاویزی فلم براہ راست توہین عدالت ہے کیونکہ اس میں عدالت کے استدلال اور صلاحیتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔


مزید پڑھیں:۔ Gujarat Assembly گجرات اسمبلی میں بی بی سی ڈاکیومنٹری کے خلاف غیرسرکاری قرارداد پیش

بی جے پی ایم ایل اے شیلیندر جین نے ایک غیر سرکاری قرارداد میں کہا کہ یہ ایوان اس دستاویزی فلم کے ریلیز اور ٹیلی کاسٹ کی سخت مذمت کرتا ہے اور مرکزی حکومت سے درخواست کرتا ہے کہ اس طرح کے عمل کو معاف نہ کیا جائے اور بھارت کے اندرونی معاملات میں غیر قانونی مداخلت پر بی بی سی کے خلاف کارروائی کی جائے، حالانکہ کانگریس اس کے حق میں نہیں بولی۔ ایوان میں اپوزیشن کی تعداد 96 اور حکمران جماعت کی تعداد 227 ہے، اس لیے مخالفت کے باوجود قرارداد منظور کر لی گئی۔ کانگریس کے ترجمان کے کے مشرا نے کہا کہ بی جے پی ان لوگوں سے پریشان ہے جو ملک کو تقسیم کررہے ہیں لیکن ملک میں رہنے والے 200 سے زیادہ صحافیوں کو مرکزی حکومت نے نوکری سے نکال دیا ہے، ان کا ذمہ دار کون ہے؟ بی جے پی جسے چاہے انہیں محب وطن کہہ سکتی ہے اور جسے چاہے وہ ملک دشمن کہہ سکتی ہے۔گجرات اسمبلی کے بعد مدھیہ پردیش میں بھی گجرات فسادات پر مبنی بی بی سی کی دستاویزی فلم کی مذمتی تحریک منظور کی گئی۔ غیر سرکاری قرار داد ایسی قرارداد ہے جو پاس کر کے حکومت کو بھیجی جاتی ہے۔ تاہم حکومتیں زیادہ تر غیر سرکاری قراردادوں پر کارروائی نہیں کرتی ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.