ETV Bharat / bharat

عالمی وباء کے خلاف جنگ

عالمی ائیر ٹرانسپورٹ ایوسی ایشن کے مطابق کورونا وائرس کے نتیجے میں روزانہ کی بنیادوں پر 11 ہزار 300 کروڑ امریکی ڈاالروں کا نقصان ہو رہا ہے،اور اگر شہری ہوا بازی میں اس طرح کا نقصان جاری رہا تو مستقبل کافی تشویشناک ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ سے پیدوار ی شعبے میں بھی کافی نقصان پیدا ہوگیا ہے۔جبکہ مصنوعات فیکٹریوں میں پڑے ہوئے ہیں، جبکہ فیکٹریوں اور کارخانوں کو بند ہونے کے نتیجے میں ملازمین اور مزدوروں کو کافی نقصانات کا سامنا کرنا پر رہا ہے۔

author img

By

Published : Mar 14, 2020, 1:03 PM IST

اٹلی کے کچھ حصوں میں حکومت کی طرف سے ان لوگوں کی گرفتاری کے احکامات صادر ہوئے ہیں، جن لوگوں نے قرنطینہ(نگرانی کی مخصوص جگہ)میں جانے سے منع کیا۔حکومت اس طرح کے غیر معمولی احکامات فرقہ وارانہ یا مذہبی تنازعات کی صورتحال میں جاری کرتی ہے۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اٹلی کی حکومت نے اپنے لوگوں کو کورونا وائرس سے بچانے اور انہیں تحفظ فرہم کرنے کیلئے مکمل لاک ڈاؤن کے احکامات جاری کیے ہیں۔

نئے کورونا وائرس نے عالمی سطح پر تشویشناک لہر پیدا کی ہے۔کئی ملکوں میں سیاحت کا ڈھانچہ ہی منہدم ہوگیا ہے، روزگار کے وسائل ختم ہوچکے ہیں۔کئی ملکوں میں لوگ ایمرجنسی کے بغیر اپنے مکانوں سے باہر آنے سے بھی اجتناب کر رہے ہیں۔2ماہ قبل چین کے وہان صوبے سے یہ جراثیم یا وائرس سامنے آیا اور اب تک 100ملکوں میں یہ پھیل چکا ہے ۔اس وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں عالمی سطح پر طبی اداروں بشمول عالمی ہیلتھ آرگنائزیشن میں بھی تشویش پیدا ہوئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے 30جنوری کو وائرس کے پھیلاؤ کو عالمی سطح پر عوامی ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا۔ دنیا بھر میں اس مہلک وائرس کے پھیلاؤ کے نتیجے میں عالمی صحت ادارے نے اس کو قابو میں کرنے کیلئے کئی اقدامات کی پہل کی۔فی الوقت تک عالمی صحت ادارے نے ایک لاکھ30ہزار طبی پیشہ واروں کو آن لائن کورس کے ذریعے7زبانوں میں اس مہلک وائرس سے بچاؤ سے متعلق تربیت دی۔ کئی ملکوں کے لیڈروں کی طرف سے تعاون اقدامات کے باوجود کوئی بھی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

روز بہ روز کئی لوگ اس وائرس کے انفیکشن کا شکار ہورہے ہیں، جبکہ وائرس کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔چین سمیت کئی ممالک میں اس مہلک وبا سے مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور اس صورتحال میں لوگوں میں تشویش پائی جارہی ہے۔اس وائرس نے پہلے ہی دنیا کے 109 ممالک میں اپنا ڈیرا جما دیا ہے، جس کے نتیجے میں طبی برادری بھی مخمصے کی شکار ہوچکی ہے۔

اس بات کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جو بھی ملک اس مہلک جراثیم کے پھیلاؤ کو روکنے اور حفاظتی اقدامات اٹھانے میں بروقت اقدامات اٹھائے گا وہ سب سے ذمہ دار ملک ہیں۔اگر کوئی بھی ملک معقول طبی سہولیات کی فراہمی میں ناکام ہوتا ہے۔اس ملک میں صورتحال مزید ابتر ہونے کو خارج از امکاں قرار نہیں دیا جاسکتا۔

عالمی صحت ادارے کے ساتھ کام کرنے والے ملکوں کیلئے برمحل ہے کہ وہ ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے فوری طبی سہولیات فراہم کریں اور اس مہلک وبا سے متاثر ہوئے شخص کی بازیابی کریں۔ وائرس میں مبتلا ہوئے شخص کو طبی سہولیات کی فراہمی میں معمولی غلطی اور لاپرواہی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔

دنیا بھر کورونا وائرس کے نتیجے میں اس وقت قریب 4 ہزار اموات ہوچکی ہے، جن میں 3 ہزار120سے زائد موت چین میں ہوئی، اٹلی میں366اور ایران میں ان کی تعداد237ہیں۔ چین میں اس وائرس میں مبتلا ہوئے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ 11 ہزار کو عبور کرچکی ہے، جبکہ چین حکومت نے ان بیماروں کا علاج کرنے کیلئے ایک ہزار بستروں پر مشتمل اسپتال تیار کیا ہے، جبکہ ووہان صوبے 'قرنطینہ' میں تبدیل ہوگیا ہے۔

گزشتہ 50 برسوں کے دوران دنیا بھر میں کئی وبا نے عام لوگوں کو متاثر کیا ہے۔جن میں سنہ 1967 میں 'ماربرگ'، سنہ 1976 میں 'ایبولا'، سنہ 1994 میں 'ہیرا'، برڈ فلو اور سنہ 1998 میں نپ ہان شامل ہیں۔ان وبائوں میں سنہ 2002میں سارس اورسنہ 2009 میں سوائن فلو یا خنزیری وائرس اور سنہ 2012میں ایم ای آر ایس اور سنہ 2013میں برڈ فلو بھی شامل ہیں۔ان وائرسوں سے عالمی سطھ پر762کروڑ60لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔

سنہ 2009 میں خنزی وائرس سے متعدد لوگ متاثر ہوئے، جبکہ برڈ فلو کے7 برس بعد کورونا وائرس نے دنیا بھر میں قہر مچایا اور لوگوں میں سخت تشویش پیدا ہو رہی ہے۔اس نتیجے میں اقتصادی شعبہ بھی لڑکھڑا گئی ہے ۔یہ وائرس بہت جلد اٹلی، جاپان،آسٹریلیاء، متحدہ عرب امارات،فرانس، جنوبی کوریا، ایران میں پھیل گیا۔لوگ عوامی مقامات پر جانے سے کترا رہے ہیں اور حکام کی ہدایات کے مد نظر رکھنے پر بھی اجتناب کیا جا رہا ہے۔کئی علاقوں میں حکومتیں اور حکام شہریوں کو گھر گھر کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کر رہی ہے، جبکہ کئی ایک ملکوں نے چین سے برآمد ہونے والی اشیاء پر پابندی عائد کی ہے۔عوامی سفر کے نتیجے میں سیاحت بھی بڑی حد تک اثر انداز ہوچکی ہے اور اس بات کے خدشات لگائے جا رہے ہیں کہ تواضع صنعت کو بڑا دھچکہ لگ سکتا ہے۔

ہوائی اڈوں میں طبی اداروں کے معائنوں کو لازمی بنا دیا گیا ہے، جبکہ کانفرنسوں، میٹنگوں اور کھیل کود کے پروگراموں پر بندشیں عائد کی گئی ہیں۔امریکہ کو اس بات سے زبردست فکرمندی ہوئی جب انہیں معلوم ہوا کہ 26 سے 29 فروری تک واشنگٹن میں جاری رہنے والی کنزرویٹو پولٹیکل ایکشن کانفرنس کے شرکاء میں شامل 2 لوگ اس وائرس کے شکار ہوگئے ہیں۔اس کانفرنس میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی موجود تھے۔اس بات سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس وائرس کے پھیلاؤ سے صورتحال کس قدر تشویشناک ہے۔

عالمی ائیر ٹرانسپورٹ ایوسی ایشن کے مطابق کورونا وائرس کے نتیجے میں روزانہ کی بنیادوں پر 11 ہزار 300 کروڑ امریکی ڈاالروں کا نقصان ہو رہا ہے،اور اگر شہری ہوا بازی میں اس طرح کا نقصان جاری رہا تو مستقبل کافی تشویشناک ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ سے پیدوار ی شعبے میں بھی کافی نقصان پیدا ہوگیا ہے۔جبکہ مصنوعات فیکٹریوں میں پڑے ہوئے ہیں، جبکہ فیکٹریوں اور کارخانوں کو بند ہونے کے نتیجے میں ملازمین اور مزدوروں کو کافی نقصانات کا سامنا کرنا پر رہا ہے۔اس صورتحال میں بچولے اور دلال غیر ضروری فائدہ اٹھا رہے ہیں، جبکہ وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی ماسکوں کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔

عالمی صحت ادارے نے اس بات کا انکشاف کیا کہ طبی عملہ کو بھی ماسکوں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ادارے نے مشورہ دیا ہے کہ ماسکوں کو ضروریات کے مطابق دستیاب رکھا جائے۔عالمی صحت ادارہ ان ملکوں کے تعاون اور مدد میں آگے آیا ہے جو ممالک اس وائرس سے کافی متاثر ہوئے ہیں۔جبکہ عالمی بنک نے بھی ترقی پذیر ملکوں کو وائرس سے بچاؤ اور تحفظ کیلئے12 بلین امریکی ڈالر امداد فراہم کرنے کا واعدہ کیا ہے۔فی الوقت تمام ملک اس عالمی وبا سے بچاؤ اور اس کئے خلاف جنگ کیلئے ایک دوسرے کی مدد میں آگے اچکے ہیں۔

کئی ممالک میں یہ وائرس سخت ترین مشکلات پیدا کر رہا ہے، تاہم بھارت میں صورتحال ابھی بھی قابو میں ہے۔فی الوقت تک بھارت میں55 افراد کو اس وائرس کے انفیکشن میں مبتلا پایا گیا ہے، جن میں16 اٹلی کے سیاح ہیں۔اگر چہ تمام مریضوں کی صورتحال بہتر ہیں اور گھبرانے کی کوئی بھی وجہ نہیں ہے۔بھارت میں سمندر پار اور دیگر ملکوں سے آنے والے 6 لاکھ مسافروں کی ابتدائی جانچ کی گئی ہے۔اس وائرس کے شکار ہوئے لوگوں کو ترجیجی بنیادوں پر علاج کیا جا رہا ہے اور فوری طور پر کوئی بھی خطرہ نظر نہیں آرہا ہے، تاہم حکومت کو غفلت شعاری کا رویہ ترک کرنے کی ضرورت ہے۔حکام کو پہلے سے زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہیں۔

امریکہ سے کورونا وائرس سے انفکیشن میں مبتلا ہوئے لوگوں کے بھارت آنے کے بعدحیدرآباد اور تلنگانہ ہائی الرٹ پر ہے، جبکہ ریاستی حکومتوں نے بھی احتیاطی اقدامات اٹھائے ہیں۔شہریوں کو سماجی میڈیا کے ذریعے آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔حکام کو تاہم اس وائرس سے جنگ کرنے کیلئے مختص کئے رقومات کا غیر ضروری استعمال کرنے میں ذمہ داری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ طبی اداروں کو ضروری طبی ساز و سامان سے لیس کرنا ضروری ہے۔جدید تحقیق مراکز قائم کرنے کی ضرورت بھی ہے اور انہیں دستیاب رکھنا لازمی ہے۔لوگوں کو احتیاطی تدابیر سے باخبر رکھنا ضروری ہے۔ بیشتر خطروں کو قابوں میں رکھا جاسکتا ہے اگر طبی پیشہ ور اور سرکاری حکام آپس میں بہترین تال میل کا ثبوت پیش کریں۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے تعلیمی شعبہ بھی متاثر ہو رہا ہے، جبکہ یونسیف نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یونیسف کی طرف سے حال ہی میں تیار شدہ رپورٹ کے مطابق 22 ملکوں میں قریب 29کروڑطلاب نے اسکول جانا بند کیا ہے۔حکومتوں نے 13ملکوں میں سرکاری طور پر15مارچ تک تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی ہدایت جاری کی ہے، جبکہ باقی9 ملکوں نے متاثرہ علاقوں میں تعطیلات کا اعلان کیا ہے۔

چین میں23کروڑ سے زاید طلاب نے اسکول جانا بند کیا ہے۔ یونسیف نے متبادل فاصلاتی اسکول قائم کرنے کا مشورہ دیا ہے، تاکہ طلاب کو اسکول بند کرنے کے نتیجے میں ان کے در و تدریس میں منفی اثرات مضمر نہ ہو۔ یہ انتظامات ان مقامات ہر ممکن ہے جہاں پر انٹرنیٹ کی اچھی خاصی سہولیات میسر ہیں، تاہم کئی ایسے علاقے بھی موجود ہیں جو دور دراز ہیں اور وہاں پر بنیادی سہولیا ت کا فقدان ہے۔ ان علاقوں میں درس و تدریس بالخصوص کمزور طلاب کو کافی نقصانات پہنچنے کا خدشہ ہے۔

دوسری جانب کمزور مالی حالت کی وجہ سے طلاب کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے کا احتمال ہیں،کیونکہ کئی ایک ملکوں میں بھارت جیسے طلاب کو اسکولوں میں ہی دن کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔کئی ملکوں کے طلاب اسکولوں میں ملنے والے دوپہر کے کھانے پر ہی انحصار کرتے ہیں اور اسکولوں کو بند کرنے کا مطلب ان ملکوں کے طلاب کے صحت اور تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔

اٹلی کے کچھ حصوں میں حکومت کی طرف سے ان لوگوں کی گرفتاری کے احکامات صادر ہوئے ہیں، جن لوگوں نے قرنطینہ(نگرانی کی مخصوص جگہ)میں جانے سے منع کیا۔حکومت اس طرح کے غیر معمولی احکامات فرقہ وارانہ یا مذہبی تنازعات کی صورتحال میں جاری کرتی ہے۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اٹلی کی حکومت نے اپنے لوگوں کو کورونا وائرس سے بچانے اور انہیں تحفظ فرہم کرنے کیلئے مکمل لاک ڈاؤن کے احکامات جاری کیے ہیں۔

نئے کورونا وائرس نے عالمی سطح پر تشویشناک لہر پیدا کی ہے۔کئی ملکوں میں سیاحت کا ڈھانچہ ہی منہدم ہوگیا ہے، روزگار کے وسائل ختم ہوچکے ہیں۔کئی ملکوں میں لوگ ایمرجنسی کے بغیر اپنے مکانوں سے باہر آنے سے بھی اجتناب کر رہے ہیں۔2ماہ قبل چین کے وہان صوبے سے یہ جراثیم یا وائرس سامنے آیا اور اب تک 100ملکوں میں یہ پھیل چکا ہے ۔اس وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں عالمی سطح پر طبی اداروں بشمول عالمی ہیلتھ آرگنائزیشن میں بھی تشویش پیدا ہوئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے 30جنوری کو وائرس کے پھیلاؤ کو عالمی سطح پر عوامی ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا۔ دنیا بھر میں اس مہلک وائرس کے پھیلاؤ کے نتیجے میں عالمی صحت ادارے نے اس کو قابو میں کرنے کیلئے کئی اقدامات کی پہل کی۔فی الوقت تک عالمی صحت ادارے نے ایک لاکھ30ہزار طبی پیشہ واروں کو آن لائن کورس کے ذریعے7زبانوں میں اس مہلک وائرس سے بچاؤ سے متعلق تربیت دی۔ کئی ملکوں کے لیڈروں کی طرف سے تعاون اقدامات کے باوجود کوئی بھی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

روز بہ روز کئی لوگ اس وائرس کے انفیکشن کا شکار ہورہے ہیں، جبکہ وائرس کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔چین سمیت کئی ممالک میں اس مہلک وبا سے مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور اس صورتحال میں لوگوں میں تشویش پائی جارہی ہے۔اس وائرس نے پہلے ہی دنیا کے 109 ممالک میں اپنا ڈیرا جما دیا ہے، جس کے نتیجے میں طبی برادری بھی مخمصے کی شکار ہوچکی ہے۔

اس بات کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جو بھی ملک اس مہلک جراثیم کے پھیلاؤ کو روکنے اور حفاظتی اقدامات اٹھانے میں بروقت اقدامات اٹھائے گا وہ سب سے ذمہ دار ملک ہیں۔اگر کوئی بھی ملک معقول طبی سہولیات کی فراہمی میں ناکام ہوتا ہے۔اس ملک میں صورتحال مزید ابتر ہونے کو خارج از امکاں قرار نہیں دیا جاسکتا۔

عالمی صحت ادارے کے ساتھ کام کرنے والے ملکوں کیلئے برمحل ہے کہ وہ ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے فوری طبی سہولیات فراہم کریں اور اس مہلک وبا سے متاثر ہوئے شخص کی بازیابی کریں۔ وائرس میں مبتلا ہوئے شخص کو طبی سہولیات کی فراہمی میں معمولی غلطی اور لاپرواہی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔

دنیا بھر کورونا وائرس کے نتیجے میں اس وقت قریب 4 ہزار اموات ہوچکی ہے، جن میں 3 ہزار120سے زائد موت چین میں ہوئی، اٹلی میں366اور ایران میں ان کی تعداد237ہیں۔ چین میں اس وائرس میں مبتلا ہوئے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ 11 ہزار کو عبور کرچکی ہے، جبکہ چین حکومت نے ان بیماروں کا علاج کرنے کیلئے ایک ہزار بستروں پر مشتمل اسپتال تیار کیا ہے، جبکہ ووہان صوبے 'قرنطینہ' میں تبدیل ہوگیا ہے۔

گزشتہ 50 برسوں کے دوران دنیا بھر میں کئی وبا نے عام لوگوں کو متاثر کیا ہے۔جن میں سنہ 1967 میں 'ماربرگ'، سنہ 1976 میں 'ایبولا'، سنہ 1994 میں 'ہیرا'، برڈ فلو اور سنہ 1998 میں نپ ہان شامل ہیں۔ان وبائوں میں سنہ 2002میں سارس اورسنہ 2009 میں سوائن فلو یا خنزیری وائرس اور سنہ 2012میں ایم ای آر ایس اور سنہ 2013میں برڈ فلو بھی شامل ہیں۔ان وائرسوں سے عالمی سطھ پر762کروڑ60لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔

سنہ 2009 میں خنزی وائرس سے متعدد لوگ متاثر ہوئے، جبکہ برڈ فلو کے7 برس بعد کورونا وائرس نے دنیا بھر میں قہر مچایا اور لوگوں میں سخت تشویش پیدا ہو رہی ہے۔اس نتیجے میں اقتصادی شعبہ بھی لڑکھڑا گئی ہے ۔یہ وائرس بہت جلد اٹلی، جاپان،آسٹریلیاء، متحدہ عرب امارات،فرانس، جنوبی کوریا، ایران میں پھیل گیا۔لوگ عوامی مقامات پر جانے سے کترا رہے ہیں اور حکام کی ہدایات کے مد نظر رکھنے پر بھی اجتناب کیا جا رہا ہے۔کئی علاقوں میں حکومتیں اور حکام شہریوں کو گھر گھر کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کر رہی ہے، جبکہ کئی ایک ملکوں نے چین سے برآمد ہونے والی اشیاء پر پابندی عائد کی ہے۔عوامی سفر کے نتیجے میں سیاحت بھی بڑی حد تک اثر انداز ہوچکی ہے اور اس بات کے خدشات لگائے جا رہے ہیں کہ تواضع صنعت کو بڑا دھچکہ لگ سکتا ہے۔

ہوائی اڈوں میں طبی اداروں کے معائنوں کو لازمی بنا دیا گیا ہے، جبکہ کانفرنسوں، میٹنگوں اور کھیل کود کے پروگراموں پر بندشیں عائد کی گئی ہیں۔امریکہ کو اس بات سے زبردست فکرمندی ہوئی جب انہیں معلوم ہوا کہ 26 سے 29 فروری تک واشنگٹن میں جاری رہنے والی کنزرویٹو پولٹیکل ایکشن کانفرنس کے شرکاء میں شامل 2 لوگ اس وائرس کے شکار ہوگئے ہیں۔اس کانفرنس میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی موجود تھے۔اس بات سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس وائرس کے پھیلاؤ سے صورتحال کس قدر تشویشناک ہے۔

عالمی ائیر ٹرانسپورٹ ایوسی ایشن کے مطابق کورونا وائرس کے نتیجے میں روزانہ کی بنیادوں پر 11 ہزار 300 کروڑ امریکی ڈاالروں کا نقصان ہو رہا ہے،اور اگر شہری ہوا بازی میں اس طرح کا نقصان جاری رہا تو مستقبل کافی تشویشناک ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ سے پیدوار ی شعبے میں بھی کافی نقصان پیدا ہوگیا ہے۔جبکہ مصنوعات فیکٹریوں میں پڑے ہوئے ہیں، جبکہ فیکٹریوں اور کارخانوں کو بند ہونے کے نتیجے میں ملازمین اور مزدوروں کو کافی نقصانات کا سامنا کرنا پر رہا ہے۔اس صورتحال میں بچولے اور دلال غیر ضروری فائدہ اٹھا رہے ہیں، جبکہ وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی ماسکوں کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔

عالمی صحت ادارے نے اس بات کا انکشاف کیا کہ طبی عملہ کو بھی ماسکوں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ادارے نے مشورہ دیا ہے کہ ماسکوں کو ضروریات کے مطابق دستیاب رکھا جائے۔عالمی صحت ادارہ ان ملکوں کے تعاون اور مدد میں آگے آیا ہے جو ممالک اس وائرس سے کافی متاثر ہوئے ہیں۔جبکہ عالمی بنک نے بھی ترقی پذیر ملکوں کو وائرس سے بچاؤ اور تحفظ کیلئے12 بلین امریکی ڈالر امداد فراہم کرنے کا واعدہ کیا ہے۔فی الوقت تمام ملک اس عالمی وبا سے بچاؤ اور اس کئے خلاف جنگ کیلئے ایک دوسرے کی مدد میں آگے اچکے ہیں۔

کئی ممالک میں یہ وائرس سخت ترین مشکلات پیدا کر رہا ہے، تاہم بھارت میں صورتحال ابھی بھی قابو میں ہے۔فی الوقت تک بھارت میں55 افراد کو اس وائرس کے انفیکشن میں مبتلا پایا گیا ہے، جن میں16 اٹلی کے سیاح ہیں۔اگر چہ تمام مریضوں کی صورتحال بہتر ہیں اور گھبرانے کی کوئی بھی وجہ نہیں ہے۔بھارت میں سمندر پار اور دیگر ملکوں سے آنے والے 6 لاکھ مسافروں کی ابتدائی جانچ کی گئی ہے۔اس وائرس کے شکار ہوئے لوگوں کو ترجیجی بنیادوں پر علاج کیا جا رہا ہے اور فوری طور پر کوئی بھی خطرہ نظر نہیں آرہا ہے، تاہم حکومت کو غفلت شعاری کا رویہ ترک کرنے کی ضرورت ہے۔حکام کو پہلے سے زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہیں۔

امریکہ سے کورونا وائرس سے انفکیشن میں مبتلا ہوئے لوگوں کے بھارت آنے کے بعدحیدرآباد اور تلنگانہ ہائی الرٹ پر ہے، جبکہ ریاستی حکومتوں نے بھی احتیاطی اقدامات اٹھائے ہیں۔شہریوں کو سماجی میڈیا کے ذریعے آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔حکام کو تاہم اس وائرس سے جنگ کرنے کیلئے مختص کئے رقومات کا غیر ضروری استعمال کرنے میں ذمہ داری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ طبی اداروں کو ضروری طبی ساز و سامان سے لیس کرنا ضروری ہے۔جدید تحقیق مراکز قائم کرنے کی ضرورت بھی ہے اور انہیں دستیاب رکھنا لازمی ہے۔لوگوں کو احتیاطی تدابیر سے باخبر رکھنا ضروری ہے۔ بیشتر خطروں کو قابوں میں رکھا جاسکتا ہے اگر طبی پیشہ ور اور سرکاری حکام آپس میں بہترین تال میل کا ثبوت پیش کریں۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے تعلیمی شعبہ بھی متاثر ہو رہا ہے، جبکہ یونسیف نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یونیسف کی طرف سے حال ہی میں تیار شدہ رپورٹ کے مطابق 22 ملکوں میں قریب 29کروڑطلاب نے اسکول جانا بند کیا ہے۔حکومتوں نے 13ملکوں میں سرکاری طور پر15مارچ تک تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی ہدایت جاری کی ہے، جبکہ باقی9 ملکوں نے متاثرہ علاقوں میں تعطیلات کا اعلان کیا ہے۔

چین میں23کروڑ سے زاید طلاب نے اسکول جانا بند کیا ہے۔ یونسیف نے متبادل فاصلاتی اسکول قائم کرنے کا مشورہ دیا ہے، تاکہ طلاب کو اسکول بند کرنے کے نتیجے میں ان کے در و تدریس میں منفی اثرات مضمر نہ ہو۔ یہ انتظامات ان مقامات ہر ممکن ہے جہاں پر انٹرنیٹ کی اچھی خاصی سہولیات میسر ہیں، تاہم کئی ایسے علاقے بھی موجود ہیں جو دور دراز ہیں اور وہاں پر بنیادی سہولیا ت کا فقدان ہے۔ ان علاقوں میں درس و تدریس بالخصوص کمزور طلاب کو کافی نقصانات پہنچنے کا خدشہ ہے۔

دوسری جانب کمزور مالی حالت کی وجہ سے طلاب کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے کا احتمال ہیں،کیونکہ کئی ایک ملکوں میں بھارت جیسے طلاب کو اسکولوں میں ہی دن کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔کئی ملکوں کے طلاب اسکولوں میں ملنے والے دوپہر کے کھانے پر ہی انحصار کرتے ہیں اور اسکولوں کو بند کرنے کا مطلب ان ملکوں کے طلاب کے صحت اور تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.