جماعت اسلامی ہند کی سیاسی ونگ ویلفیئر پارٹی نے 12۔ 13 ستمبر کو کشمیر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، واپسی کے بعد انہوں نے پریس کلب آف انڈیا میں اپنے دورہ کشمیر کی روداد میڈیا کے سامنے پیش کی۔
انہوں نے حکومت کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ' حکومت کشمیر میں حالات سازگار ہونے کا دعوی کر رہی ہے جبکہ زمینی حقائق کا ان دعووں سے کوئی میل نہیں، وادی میں عوام ناراض ہیں اور سول کرفیو کا سلسلہ جاری ہے، مواصلات بند ہیں، اسکولوں پر تالے لگے ہیں، سیاسی لیڈران جیلوں میں بند ہیں، انہیں سازگار حالات نہیں کہا جاسکتا'۔
اس وفد میں پارٹی کے سربراہ سید قاسم رسول الیاس، قومی جنرل سکریٹری شیما محسن اور سبرامنی آرموگام شامل تھے۔
اس موقعے پر قاسم رسول الیاس نے کہا کہ بھارتی حکومت کو کشمیر کا خصوصی درجہ ختم نہیں کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے ایک سیاسی وعدے کی تکمیل کے لیے ایک ریاست کو تقسیم کردیا جو بالکل بھی موزوں نہیں تھا۔
وفد میں شامل شیما محسن نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات کرتے ہوئے کشمیر عوام کا درد بیان کیا اور کہا کہ 'کشمیر میں کچھ بھی بہتر نہیں، لوگ پریشان ہیں اور خوف کے سایے میں جی رہے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ' بظاہر کرفیو نہیں ہے لیکن تمام دکانیں اور پورا مارکیٹ بند ہیں۔ انتظامیہ چاہتی ہے کہ لوگ دوکانیں کھولیں لیکن عوام احتجاجاً دوکانیں بند رکھے ہیں اور اپنے غصہ کا اظہار کر رہے ہیں'۔
اسکول اور کالجز بند ہیں۔ انتطامیہ چاہتی ہے کہ اب اسکول کھل جائیں اور کلاسیں چلنے لگیں لیکن طلبا کو اسکولز کالجز تک جانے کے لیے ٹراسپورٹ کی سہولت مہیا نہیں ہیں۔
ستمبر اور اکتو بر میں سیب کی فصلیں کٹنے کا وقت ہوتا ہے فصل کی کٹائی کے لیے مزدور نہیں مل رہے ہیں ۔ کشمیر میں لوگوں کی معیشت کا بڑا دارو مدار سیب کی فصل پر ہی ہوتا ہے جس سے سالانہ آٹھ ہزار کروڑ روپے کی آمدنی ہوتی ہے، جو خطرے میں ہے'۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے حکومت کے سامنے 8 مطالبات رکھے ہیں جس میں سب سے اہم کشمیریوں کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کی شروعات ہے۔ اس کے علاوہ مواصلات کی بحالی اور کشمیری شہریوں کے جمہوری حقوق کا فوری تحفظ بھی اس میں شامل ہے'۔