ETV Bharat / bharat

'تین طلاق بل خواتین کے حقوق کے خلاف' - lok sabha

گزشتہ جمعرات کو لوک سبھا سے طلاق ثلاثہ بل 2019 کو منظوری ملنے کے بعد جہاں حکومت مسلم خواتین کوانصاف دلانے کا دعویٰ کررہی ہے تو وہیں مسلم نوجوانوں نے حکومت کی نیت پرشک ظاہر کیا۔

bihar
author img

By

Published : Jul 29, 2019, 8:57 AM IST

اس بل کو اب راجیہ سبھا میں منظور ہونا باقی ہے اور اس کے بعد صدر جمہوریہ کے پاس دستخط کے لئے بھیجا جائے گا پھر یہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔

تین طلاق بل خواتین کے حقوق کے خلاف ہے

اس ضمن میں ریاست بہار کے دربھنگہ کے کچھ مسلم نوجوان، دانشور اور سیاسی کارکنان سے ای ٹی وی بھارت کی بات ہوئی ، جس میں سب سے پہلے انصاف منچ کے صدر اور بھاکپہ مالے کے سینئر رہنما نیاز احمد، محمد بقااللہ سیاسی کارکن نثار مریاوی جےڈی یو پارٹی کے دہلی ریاستی اقلیتی سیل کے صدر حسین احمد، آرجے ڈی کے پنچایت صدر محمد نعمت اللہ اور اس کے بعد آخر میں ایک مسلم بے روزگار نوجوان محمد شعیب شامل ہیں۔


ان لوگوں کی اگر سوچ کی بات کریں تو سبھوں نے اس بل کی مخالفت کی اور کہا کہ بہتر یہ ہوتا کہ حکومت مسلمانوں کی خاص طور پر مسلم خواتین کی بے روزگاری اور دیگر مسائل پر توجہ دیتی،انھوں نے کہا کہ اس بل کے آنے سے مسلم طبقہ میں بے روزگاری بڑھے گی اور اس قانون کا غلط استعمال بھی ہوگا۔
وہیں حکومت کو کسی بھی مذہب کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں ہےاگر توجہ دینی ہے تو اس قوم کی ترقی کیسے ہو اس پر توجہ دینی چاہیے وہیں انھوں نے کہا کہ اگر قانون بنانا ہے تو ہجومی تشدد کے خلاف قانون بنانا چاہیے، جہاں آئے دن سر عام لوگوں کو مار مار کر ہلاک کیا جارہا ہے۔

اس بل کو اب راجیہ سبھا میں منظور ہونا باقی ہے اور اس کے بعد صدر جمہوریہ کے پاس دستخط کے لئے بھیجا جائے گا پھر یہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔

تین طلاق بل خواتین کے حقوق کے خلاف ہے

اس ضمن میں ریاست بہار کے دربھنگہ کے کچھ مسلم نوجوان، دانشور اور سیاسی کارکنان سے ای ٹی وی بھارت کی بات ہوئی ، جس میں سب سے پہلے انصاف منچ کے صدر اور بھاکپہ مالے کے سینئر رہنما نیاز احمد، محمد بقااللہ سیاسی کارکن نثار مریاوی جےڈی یو پارٹی کے دہلی ریاستی اقلیتی سیل کے صدر حسین احمد، آرجے ڈی کے پنچایت صدر محمد نعمت اللہ اور اس کے بعد آخر میں ایک مسلم بے روزگار نوجوان محمد شعیب شامل ہیں۔


ان لوگوں کی اگر سوچ کی بات کریں تو سبھوں نے اس بل کی مخالفت کی اور کہا کہ بہتر یہ ہوتا کہ حکومت مسلمانوں کی خاص طور پر مسلم خواتین کی بے روزگاری اور دیگر مسائل پر توجہ دیتی،انھوں نے کہا کہ اس بل کے آنے سے مسلم طبقہ میں بے روزگاری بڑھے گی اور اس قانون کا غلط استعمال بھی ہوگا۔
وہیں حکومت کو کسی بھی مذہب کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں ہےاگر توجہ دینی ہے تو اس قوم کی ترقی کیسے ہو اس پر توجہ دینی چاہیے وہیں انھوں نے کہا کہ اگر قانون بنانا ہے تو ہجومی تشدد کے خلاف قانون بنانا چاہیے، جہاں آئے دن سر عام لوگوں کو مار مار کر ہلاک کیا جارہا ہے۔

Intro:گزشتہ جمعرات کو لوک سبھا میں مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) بل 2019 کو بحث کے لئے پیش کیا گیا اور پاس بھی ہو گیا وہیں حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک میں مسلم خواتین کو بھی انصاف وقار اور عزت دینے کی حامی ہے اور اسی لئے طلاق جیسی معاشرہ کی بیماری سے متاثرہ خواتین کو انصاف دلانے کے لئے تین طلاق بل لایا گیا ہے - اس بل کو اب راج سبھا میں پاس ہونا ہے اور اس کے بعد راسٹر پتی کے پاس دستخط کے لئے جائے گا فر یہ قانون کی شکل لے لے گا، اسی موضوع پر جب دربھنگہ کے کچھ مسلم نوجوان دانشور اور سیاسی کارکنوں سے ای ٹی وی بھارت نے ان کی سوچ جاننی چاہی جس میں سب سے پہلے انصاف منچ کے صدرِ اور بھاکپہ مالے کے شینئر لیڈر نیاج احمد اور اس کے بعد ایک نوجوان محمد بقااللہ اور اسکے بعد سیاسی کارکن نسار مریاوی اور اس کے بعد جدیو پارٹی کے دھلی ریاستی اقلیت سیل کے صدر حسین احمد اور اس کے بعد راجد کے پنچایت صدر محمد نعمت اللہ اور اس کے بعد آخر میں ایک مسلم بے روزگار نوجوان محمد شعیب سامل ہیں ان لوگوں کی اگر سوچ کی بات کریں تو سبھی اس بل کے خلاف دکھے اور اس بل سے کافی غصہ ظاہر کیا ان سبھوں کی سوچ میں اس بل سے بہتر یہ ہوتا کہ حکومت مسلمانوں کی خاص طور پر مسلم خواتین کی بے روزگاری دوسری دقتوں پر توجہ دیتی اور اس بل کے انے سے اور مسلم میں بے روزگاری بھرے گی اس قانون کا غلط استعمال بھی ہوگا وہیں حکومت کو کسی بھی مذہب کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں لینا چاہیے اگر توجہ ہی دینی تھی تو اس قوم کی ترقی کیسے ہو اس پر توجہ دینی چاہیے وہیں مآب لنچنگ پر قانون بنا نا چاہیے، اگر قانون بنا بھی رہی ہے تو اگر خاتون واقعی طلاق کی شکار ہوتی ہیں تو انہیں حکومت ان کے شوہر تو جیل چلے جائیں گے فر ان کا گھر کسے چلے گا انکا انتظام کون کرے گا حکومت اس کو فر پینسن دیتی اس طرح کا تو فلاح کا کام نہیں کرے گی مگر ووٹ بینک اور سیاسی طور پر مسلمانوں کی حالت اور بگاڑ نے کے لئے ایسے قانون لائ ہے - کچھ اسی طرح کی سوچ إن لوگوں نے ظاهر کیا ہے خود سنئے انہیں لوگوں کی زبانی _


Body:نہیں


Conclusion:نہیں
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.