ETV Bharat / bharat

'ہجومی تشدد پر مذمتی بیان نہیں بلکہ قانون سازی ضروری ہے'

author img

By

Published : Aug 2, 2020, 8:23 PM IST

مولانا ارشد مدنی کہا کہ یہ بات انتہائی اطمینان بخش اور قابل ستائش ہے کہ جمعیۃعلماء ہند اور علماء کی اپیلوں کا احترام کرتے ہوئے مسلمانوں نے عیدالاضحی اور قربانی کے دوران وزارت صحت کی گائیڈلائن پر سختی سے عمل کیا۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی

عیدالاضحی کے موقع پر وزارت صحت کی گائیڈ لائن اور جمعیۃ علماء ہند کی اپیل پر عمل کرنے اور ہر طرح سے امن و امان کو برقرار رکھنے پر مسلمانوں کی ستائش کی ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے ہریانہ کے گروگرام میں گاؤ رکشکوں کے ہاتھوں مبینہ طور پر لقمان کی ماب لنچنگ کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ حکومت نے اس کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کے پہلے دن سے مطالبہ پر قانون بنایا ہوتا تو اس طرح کے واقعات رونما نہیں ہوتے۔

جمعیۃ علماء ہند کے اس اپیل کا لوگوں نے احترام کرتے ہوئے کہ”سورج نکلنے کے بیس منٹ کے بعد مختصر طریقہ پر نماز اور خطبہ ادا کرکے قربانی کی ہے“جو کہ قابل قدرہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ بقیہ قربانی کے دن میں بھی اسی طرح نظم وضبط کا خیال رکھیں گے۔مولانا مدنی نے ہریانہ کے گروگرام میں گوشت لیجانے والے لقمان کی مبینہ طور پر گو رکشکوں کے ہاتھ ہتھوڑے سے پٹائی پر اپنی سخت برہمی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حیوانیت اور درندگی کی انتہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہریانہ ماب لنچنگ کی ایک’پریوگ شالہ‘ بن گئی ہے اور ہجومی تشدد پر مذمتی بیان نہیں بلکہ قانون سازی ضروری ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے باوجود یہ درندگی نہیں رک رہی ہے، حالانکہ 17/جولائی 2018کو سپریم کورٹ نے اس طرح کے واقعات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک فیصلہ میں کہا تھا کہ کوئی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔

یہ بھی پڑھیے:’نئی تعلیمی پالیسی میں شفافیت کا فقدان‘

اور مرکزسے اسے روکنے کے لئے پارلیمنٹ میں الگ سے قانون بنانے کی ہدایت بھی کی تھی لیکن اس کے بعد بھی ماب لنچنگ کے واقعات ہورہے ہیں تو پھر اس کا صاف مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ ایسا کررہے ہیں انہیں سیاسی تحفظ اور پشت پناہی حاصل ہے؟

انہوں نے کہا کہ 'صرف اتناہی نہیں ضمانت ملنے پر ان ملزمین کا سیاسی لوگ استقبال کرتے ہیں اس لئے ان کے حوصلے بلند ہیں'۔

مولانا مدنی نے دعوی کیا کہ ہجومی تشدد ایک مذہبی مسئلہ ہے کیونکہ مذہبی بنیاد پر لوگوں کو تشدد اور بربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے'۔

اس لئے تمام سیاسی پارٹیوں خاص کر وہ پارٹیاں جو اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں میدان عمل میں کھل کرسامنے آئیں اور اس کے خلاف قانون سازی کے لئے عملی اقدام کریں صرف مذمتی بیان کافی نہیں۔ واضح رہے کہ ماب لنچنگ کے بارے میں سپریم کورٹ نے جولائی 2018میں فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو کچھ ہدایات دی تھیں جن میں سے کچھ یہ ہیں۔

چار ہفتے میں معاملہ کی تحقیقات، ایک ماہ کے اندر معاوضہ پالیسی کا اعلان، چھ مہینے میں سماعت مکمل ہو، لیکن مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی ان دیکھی کرتے ہوئے اب تک ان میں سے کسی ہدایت پر عمل نہیں کیا ہے اور نہ ہی ماب لنچنگ کے خلاف قٖانون بنایا ہے۔

عیدالاضحی کے موقع پر وزارت صحت کی گائیڈ لائن اور جمعیۃ علماء ہند کی اپیل پر عمل کرنے اور ہر طرح سے امن و امان کو برقرار رکھنے پر مسلمانوں کی ستائش کی ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے ہریانہ کے گروگرام میں گاؤ رکشکوں کے ہاتھوں مبینہ طور پر لقمان کی ماب لنچنگ کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ حکومت نے اس کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کے پہلے دن سے مطالبہ پر قانون بنایا ہوتا تو اس طرح کے واقعات رونما نہیں ہوتے۔

جمعیۃ علماء ہند کے اس اپیل کا لوگوں نے احترام کرتے ہوئے کہ”سورج نکلنے کے بیس منٹ کے بعد مختصر طریقہ پر نماز اور خطبہ ادا کرکے قربانی کی ہے“جو کہ قابل قدرہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ بقیہ قربانی کے دن میں بھی اسی طرح نظم وضبط کا خیال رکھیں گے۔مولانا مدنی نے ہریانہ کے گروگرام میں گوشت لیجانے والے لقمان کی مبینہ طور پر گو رکشکوں کے ہاتھ ہتھوڑے سے پٹائی پر اپنی سخت برہمی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حیوانیت اور درندگی کی انتہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہریانہ ماب لنچنگ کی ایک’پریوگ شالہ‘ بن گئی ہے اور ہجومی تشدد پر مذمتی بیان نہیں بلکہ قانون سازی ضروری ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے باوجود یہ درندگی نہیں رک رہی ہے، حالانکہ 17/جولائی 2018کو سپریم کورٹ نے اس طرح کے واقعات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک فیصلہ میں کہا تھا کہ کوئی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔

یہ بھی پڑھیے:’نئی تعلیمی پالیسی میں شفافیت کا فقدان‘

اور مرکزسے اسے روکنے کے لئے پارلیمنٹ میں الگ سے قانون بنانے کی ہدایت بھی کی تھی لیکن اس کے بعد بھی ماب لنچنگ کے واقعات ہورہے ہیں تو پھر اس کا صاف مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ ایسا کررہے ہیں انہیں سیاسی تحفظ اور پشت پناہی حاصل ہے؟

انہوں نے کہا کہ 'صرف اتناہی نہیں ضمانت ملنے پر ان ملزمین کا سیاسی لوگ استقبال کرتے ہیں اس لئے ان کے حوصلے بلند ہیں'۔

مولانا مدنی نے دعوی کیا کہ ہجومی تشدد ایک مذہبی مسئلہ ہے کیونکہ مذہبی بنیاد پر لوگوں کو تشدد اور بربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے'۔

اس لئے تمام سیاسی پارٹیوں خاص کر وہ پارٹیاں جو اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں میدان عمل میں کھل کرسامنے آئیں اور اس کے خلاف قانون سازی کے لئے عملی اقدام کریں صرف مذمتی بیان کافی نہیں۔ واضح رہے کہ ماب لنچنگ کے بارے میں سپریم کورٹ نے جولائی 2018میں فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو کچھ ہدایات دی تھیں جن میں سے کچھ یہ ہیں۔

چار ہفتے میں معاملہ کی تحقیقات، ایک ماہ کے اندر معاوضہ پالیسی کا اعلان، چھ مہینے میں سماعت مکمل ہو، لیکن مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی ان دیکھی کرتے ہوئے اب تک ان میں سے کسی ہدایت پر عمل نہیں کیا ہے اور نہ ہی ماب لنچنگ کے خلاف قٖانون بنایا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.