اشوک کانتھا کو لگتا ہے کہ ابھی وزیرِ اعظم مودی اور صدر ذی کے بیچ کی بات چیت کا وقت تو نہیں ہو سکتا ہے لیکن سیاسی اور سفارتی سطح پر مذاکرات جاری رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ فوجی سطح پر ہونے والی بات چیت مددگار ضرور ہوسکتی ہے مگر مناسب نہیں ہے۔
ایک سابق سفارتکار اشوک کانتھا کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین کو اگر اپنے رشتے آگے بڑھاتے رہنا ہے تو پھر لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) کی فوری طور وضاحت اور تصدیق کی جانی چاہیئے۔بیجنگ میں بھارت کے سابق سفیر اور فی الوقت انسٹیچیوٹ آف چائینیز اسٹیڈیز (آئی سی ایس) کے ڈائریکٹر کانتھا کا ماننا ہے کہ اگر بھارت اور چین سرحدی تنازعہ کو حل نہیں کریں گے گلوان وادی میں پیش آمدہ خوفناک واقعہ،جس میں کم از کم 20بھارتی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں،کے جیسے مزید واقعات جاری رہیں گے۔
انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ چین نے گذشتہ 18 سال سے سرحدی تصفیہ کو تعطل کا شکار بنائے رکھا ہے کیونکہ وہ دانستہ غیر یقینیت کو بھارت کے خلاف فائدہ اٹھانے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
پیش ہے اشوک کانتھا کے ساتھ ہوئی خاص بات چیت کے اقتباسات:
سوال: بھارت-چین سرحد پر دہائیوں کے امن و سکون کے بعد حالیہ پُر تشدد جھڑپوں کے بعد کیا لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) کی نوعیت دائمی طور بدل گئی ہے؟
یہ بات واضح ہے کہ کچھ انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے۔ایل اے سی اور بین الاقوامی سرحد پر صف بندی (ایلائنمنٹ) کے کچھ مسائل کے باوجود بھارت اور چین کے ایک ساتھ کام کرتے رہنے کی وجہ سے گذشتہ 45سال کے دوران یہ بات یقینی ہوچکی تھی کہ ایل اے سی نسبتاََ پُرامن بنی رہے۔1975سے ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا کہ جس میں دونوں جانب سے کوئی جانی نقصان ہوا ہو،یہ ساری باتیں ہماری پُشت پر ہیں۔ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ انتہائی سنگین صورتحال میں سے نکل کر کیسے آگے بڑھا جاسکے۔ہمیں اپنی موجودہ مشکل صورتحال کی سنجیدگی کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے۔یہ دیکھنے کی شدید ضرورت ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تناؤ بڑھنے نہ پائے۔ہمیں وہ خارج از امکان قرار نہیں دینا چاہیئے۔ جب موجودہ چپقلش شروع ہوگئی تھی ہم نے کہا تھا کہ اگر مسلح اہلکار زیادہ دیر تک ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہے تو ایسے میں حادثہ ہونے کا ہمیشہ خطرہ رہتا ہے اور یہی سب سوموار کی شام کو ہوا ہے۔لہٰذا دونوں جانب کی فورسز کو یہ واضح سیاسی پیغام دئے جانے کی ضرورت ہے کہ جتنا جلدی ممکن ہوسکے تناؤ کم (ڈی ایسکلیشن)کیا جائے۔ اسکے بعد صورتحال کو ایک بار پھر واپس قابو میں کرنے کیلئے ہمیں سلسلہ وار اقدامات کرنا ہونگے۔
سوال: مگر زمینی سطح پر،جہاں فوجی اہلکار جذباتی،حساس اور غصے میں ہیں، تو ڈی ایسکلیشن کا عمل بڑا پیچیدہ ہوگا لہٰذا معاملات کے بگڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے،جن میں اُن دیگر مقامات پر حالات خراب ہونے کا امکان شامل ہے کہ جہاں دونوں افواج آمنے سامنے ہیں،؟
میں ایک ایسی دیگر کئی مقامات پر تشدد بھڑک اٹھنے کے امکان کو رد نہیں کروں گا۔مجھے معقول طور پر اعتماد ہے کہ دونوں جانب یہ چاہیں کہ کہ تشدد بھڑک اٹھنا سرحدی تنازعہ پر منتج نہ ہو۔فی الواقع بھارت اور چین نے سرحدی علاقوں میں امن و سکون بنائے رکھنے کیلئے کافی سرمایہ کاری کی ہے۔ہم نے سرحدی علاقوں میں امن بنائے رکھنے کیلئے اقداماتِ اعتماد سازی (سی بی ایم)اور اسٹنڈارڈ اوپریٹنگ پروسیجرس (ایس او پی) کا کافی وسیع ڈھانچہ قائم کیا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ فی الوقت اس سب سے کام نہیں بن سکا ہے لہٰذا ہمیں کچھ خود احتسابی کرکے فوری اقدامات کرنا ہونگے۔ یہ پیغام واضح ہونا چاہیئے کہ دونوں ممالک کے بیچ مزید تناؤ (ایسکلیشن) نہیں ہونا چاہیئے۔تخفیفِ تناؤ(ڈِی ایسکلیشن) اور عدمِ مصروفیت (ڈِس انگیجمنٹ) جاری رہنی چاہیئے اور اسے اسٹیٹس کو انٹی کے منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہیئے۔ ایسی کوئی صورتحال ہمارے لئے قابلِ قبول نہیں ہوسکتی ہے کہ جس میں چین کو وہ سب رکھنے کی اجازت ملے کہ جو کچھ اس نے امسال اپریل سے یکطرفہ کارروائی کے ذرئعہ حاصل کیا ہے۔اُس صورتحال،جو اپریل میں ہمارے مابین پیش آمدہ حالیہ واقعات سے قبل موجود تھی،کی بحالی انتہائی اہم ہے۔اسکے بعد ہمیں ایس او پیز کا سرِ نو جائزہ لیکر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کب ،کیا اور کہاں غلط ہوا ہے۔یہ بات بھی مساوی اہمیت کی حامل ہے کہ آگے کی جانب دیکھتے ہوئے سدِباب کے کچھ ذرائع تلاش کئے جائیں۔ ہم موجودہ صورتحال کو قبول نہیں کرسکتے ہیں کہ جس میں ایل اے سی کی صف بندی (ایلائنمنٹ) کے حوالے سے بہت زیادہ ابہام ہے۔ہمیں ایل اے سی کے حوالے سے وضاحت اور تصدیق کرنا ہوگی۔اس بارے میں ہمارا ایک باضابطہ افہام و تفہیم ہے۔ہم نے نقشوں کا تبادلہ کرکے ایل اے سی کے حوالے سے ایک مشترکہ مفاہمت پر اتفاق کیا ہوا تھا البتہ چین نے گذشتہ 18سال سے اس عمل کو تعطل کا شکار بنایا ہوا ہے۔یہ ایک ویک اپ کال ہونی چاہیئے اور ہمیں اس عمل کو بحال کرنا چاہیئے۔ اور کیا ہم واقعی کسی ایسی صورتحال کے ساتھ غیر یقینی طور پر زندگی گزار سکتے ہیں کہ جہاں ہماری سرحدوں کو لیکر اتنے بڑے اختلافات پائے جاتے ہوں؟
دو خصوصی نمائندوں (ایس آرز)کو 2003 سے دیا ہوا کام یہ ہے کہ سرحدی تنازعہ کا ایک سیاسی حل تلاش کریں،انہوں نے پہلے پہل 2005میں،جب ہم نے سرحدی تصفیہ کیلئے راہنما اصولوں اور پولیٹکل پیرامیٹرس کو مان لیا تھا، کچھ اچھی پیشرفت دکھائی لیکن تب سے کوئی اصل پیشرفت نہیں دیکھی جاسکی ہے۔ انہیں اپنے اصل اختیار کے تئیں دیکھنا ہوگا کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جسے ہم غیر یقینی طور پیچھے نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔اگر ہم نے ویسا کیا جیسا کہ گلوان وادی میں ہوا ہے، ہمیں خوفناک واقعات کے ذرئعہ قیمت چکانا ہوگی۔
سوال: کیا موجودہ میکانزمز اور باونڈری پروٹوکولز زائدالمعیاد ہوچکے ہیں؟
میں نہیں سمجھتا کہ یہ اقداماتِ اعتماد سازی یا اسٹنڈارڈ اوپریٹنگ پروسیجرس زائد المعیاد ہوچکے ہیں۔میں ان میں سے کئی ایک سے متعلق بات چیت میں گہرائی سے ملوث رہا ہوں اور میں آپ کو بتاسکتا ہوں کہ وہ (سی بی ایمز و ایس او پیز) بہترین ہیں۔ البتہ مسئلہ ان اقدامات یا معاہدات کے مناسب نفاذ یا اطلاق کا ہے۔ ہمیں پریشانی کو دور کرتے کرتے مزید پریشانیاں کھڑا نہیں کرنی چاہیئے بلکہ ہمیں اقداماتِ اعتماد سازی کے ساتھ کام کرنا چاہیئے کیونکہ ہم دونوں ممالک ان اقدامات کا احترام کرنے کا عزم دہراتے رہے ہیں۔ ہمیں ایل اے سی کا سختی سے احترام کرنا چاہئے کیونکہ ہم ایسا کرنے کے پابند ہیں۔
سوال: کیا ابھی وزیرِ اعظم مودی اور صدر ذی جِنگ پِنگ کے بیچ براہِ راست بات چیت ہونی چاہیئے یا پھر ہلاکتوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ بات چیت کیلئے موذون وقت نہیں ہے؟
مکمل حقائق جانے بغیر میں یہ تجویز دینا پسند نہیں کروں گا کہ وزیرِ اعظم مودی فون اٹھائیں اور صدر ذی کے ساتھ بات کریں لیکن کافی اعلیٰ سفارتی سطح پر روابط کی یقیناََ ضرورت ہے،سرحدی کمانداروں کے مابین ملاقاتیں مددگار ہوسکتی ہیں لیکن ہم نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ فوجی سطح کی بات چیت مددگار تو ہوسکتی ہے لیکن یہ مناسب نہیں ہے۔ ہمیں سفارتی اور سیاسی سطح پر روابط بڑھانا ہونگے۔یہ شائد دونوں ممالک کے اُن خصوصی نمائندوں کے بیچ بات چیت ہوسکتی ہے کہ جن کے ذمہ سرحدی تنازعہ کو دیکھنے کا کام ہے۔
سوال: کیا سیاسی ہدایت مقامی کمانڈروں تک پہنچ جاتی ہے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ چین کی تازہ مداخلت مربوط ، پہلے سے منصوبہ بند اور کم از کم چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے مغربی کمانڈ تھیٹر کی ہدایت کردہ ہے۔تو کیا ایسے میں سیاسی پیغام رسانی مددگار ہوسکتی ہے؟
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ واقعات مقامی (یعنی چینی فوج کی سطح پر لئے گئے فیصلے کے تحت کئے جاچکے) نہیں ہیں۔5 مئی سے ہوتی آرہیں بیشتر مداخلتیں اور سرحدی واقعات،جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،سِکم سے مغربی سیکٹر تک کافی وسیع فرنٹئیر پر پیش آئے ہیں لہٰذا ظاہر ہے کہ مختلف مقامات پر اتنے زیادہ واقعات چینی قیادت میں اعلیٰ سطح پر فیصلہ لئے جانے کے بغیر نہیں ہوسکتے ہیں۔چین اس حوالے سے فیصلہ لیا ہوا محسوس ہورہا ہے لیکن اسکا لازمی طور یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ چین میں سرحدوں پر امن و سکون کی بحالی کے حوالے سے کوئی دلچسپی یا چاہت نہیں ہے۔ہماری طرح ہی چین بھی سرحدی علاقوں میں امن و سکون بنائے رکھنے کیلئے سرمایہ کاری کرچکا ہے اور یہ وقت ہے کہ ہم دونوں ایک مشکل صورتحال سے نکل آئیں۔ہمارا چین کے ساتھ ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل رشتہ ہے۔
سوال: لیکن کیا ایل اے سی کی وضاحت اور توثیق چین کیلئے موافق ہوگی جو شائد بھارت کو دبائے رکھنے اور اسکے برخلاف فائدہ اٹھانے کیلئے پُرامن سرحد پر پُر خطر سرحد کو ترجیح دیگا؟
مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ چین نے ایل اے سی کی صف بندی کے حوالے سے عمداََ ابہام کی صورتحال بنائے رکھی ہے کیونکہ یہ سب انکو ’’سیوٹ‘‘کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایل اے سی سے متعلق ایک مشترکہ مفاہمت کے تئیں دونوں ممالک میں ایک باضابطہ مفاہمت اور تحریری معاہدہ ہونے کے باوجود انہوں (چین) نے گذشتہ 18سال سے ایل اے سی کی وضاحت کے عمل کو تعطل کا شکار رکھا ہوا ہے۔لیکن چین کو یہ زوردار پیغام پہنچائے جانے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ بھارت کے ساتھ رشتوں کو نسبتاََ ایک مثبت سمت آگے بڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں تو سرحدی علاقوں کا پُرامن رہنا لازمی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین یہ اہم مفاہمت ہے کہ بھارت-چین رشتوں کے تعمیراتی رہنے کیلئے سرحدی علاقوں کا پُرامن رہنا شرطِ اول ہے۔
سوال:کیا چین اسٹیٹس کو اینٹ کی بحالی پر آمادہ ہوگا؟ پی ایل اے کی مغربی کمانڈ تھیٹر کے ترجمان نے ایک بیان میں پورے گلوان دریا پر حق جتایا ہے اور وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ چین یکطرفہ طور موجودہ حئیت (اسٹیٹس کو) کو بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایل اے سی خود مختاری سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک دہندہ پوزیشن کے متعلق ہے۔یہ ایل اے سی ہے جس حالت میں یہ زمین پر موجود ہے لہٰذا دونوں جانب اسکی موجودہ حئیت کو نہ بدلنے کیلئے وعدہ بند ہیں لیکن جو کچھ چند ہفتوں سے چینی کررہے ہیں اسکا صاف مقصد ایل اے سی کی حئیت کو تبدیل کرنا ہے۔ سوموار کو کیا ہوا، اگر آب وزارتِ خارجہ کے بیان کو دیکھیں گے، یہ سب کچھ چین کی جانب سے ،سرحدی کمانداروں کے بیچ 6 جون کو ہوئی میٹنگ میں کئے گئے اتفاقی فیصلوں کی پرواہ کئے بغیر،گلوان وادی کا اسٹیٹس کو تبدیل کردئے جانے کی کوشش کے نتیجے میں ہوا ہے۔ لہٰذا اسٹیٹس کو کا احترام کرنا اور اسکے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہ دینا انتہائی لازمی ضرورت ہے۔ اس وجہ سے میں بعض میڈیا رپورٹوں میں یہ کہے جانے کچھ پریشان ہوتا ہوں کہ ہماری جانب ایل اے سے پر بفر زون ہوگا۔ہمیں ایل اے سی کے اپنی طرف کی پٹرولنگ پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں کرنی چاہیئے۔اسٹیس کو کے تحت نہ صرف چینی فوج کو واپس بھیجدیا جانا چاہیئے بلکہ ہماری پٹرولنگ اور سرحدی علاقوں میں ترقیاتی کاموں پر کوئی پابندی بھی نہیں ہونی چاہیئے ۔
سوال: قومی سلامتی کے سابق مشیر (این ایس اے) ایس ایس مینننے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ لین دین کسی بھی طرح میڈیا کے ذرئعہ عوام کے بیچ نہیں ہونا چاہیئے لیکن چینیوں کیلئے خاموشی کا مطلب ایسی چیزوں کی قبولیت ہوسکتی ہے کہ جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ہے۔عوام میں کس طرح کا پیغام جانا چاہیئے؟وزیرِ اعظم مودی نے گذشتہ 24گھنٹوں کے دوران چینیوں کے ہاتھوں ہوئی ہلاکتوں پر ایک لفط نہیں بولا ہے،کیا یہ خاموشی موذوں ہے؟
مجھے اس بات کے ساتھ اتفاق ہے کہ یہ باتیں بڑی حساس ہیں اور یہ میڈیا کے ذریعہ سرِ عام نہیں کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اسکے ساتھ ہی ساتھ معاملے پر بڑی شفافیت کی بھی ضرورت ہے،ہماری جانب کی کہانی کو بھی سامنے رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ماضی میں خود اس طرح کی سرگرمیوں میں مصروف رہنے والے ایک پریکٹشنر کی حیثیت سے میں ان حدود سے واقف ہوں کہ جنکے آگے کے حقائق عوام کے سامنے نہیں رکھے جاسکتے ہیں۔البتہ ہماری جانب سے بہتر مواصلات کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ہمیں ایسی قیاس آرائیوں کو روکنا چاہئے جو لیک یا لاعلمی پر مبنی ہیں اور جن سے پرہیز کیا جاسکتا ہے۔
سوال: وزیرِ اعظم مودی اور صدر ذی گذشتہ 6 سال میں 14 بار مل چکے ہیں جبکہ وزیرِ اعظم پانچ بار چین کا دورہ کرچکے ہیں۔کیا یہ چائنا ڈپلومیسی کی ناکامی ہے؟اعلیٰ قیادت کی جانب سے ایک عوامی پیغام کتنا ضروری ہے؟
وزیرِ اعظم مودی اور صدر ذی کے مابین روابط کا استوار رہنا بڑا مددگار ثابت ہوا ہے۔اعلیٰ سطح پر مصروفیت سے اس چیز کو یقینی بنانے میں مدد ملی ہے، بھارت اور چین ایسے رشتے میں استوار ہیں کہ جو فطری طور پیچیدہ اور مشکل ہے۔ہم نے اُتار،چڑھاو دیکھے ہیں،فی الوقت ہم ایک سنجیدہ تنزل دیکھ رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی مصروفیت انتہائی اہم ہے اور ہمیں اس پر سوال نہیں اٹھانا چاہیئے۔