ETV Bharat / bharat

بھارتی دیہات کیلئے حفاظتی ڈھال کی ضرورت - بھارت اپنے گاؤں کو کورونا سے کیسے محفوظ کرے گا

بھارت میں صحتِ عامہ کے نظام کی حالت کسی سے چھپی نہیں ہے ملک کے دیہات میں کورونا وائرس کو پھیلنے سے بلکہ اس کی پہنچ کو روکنے کی شدید ضرورت ہے۔ملک کی سلامتی اس بات میں ہے کہ دیہات کی سرحدوں کو فوری طور پر بند کردیا جائے اور ملک بھر کے دیہات میں تالہ بندی کرادی جائے۔تاہم یہ حکومت کے ساتھ ساتھ خود ملک کے عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وائرس کو دیہات میں پہنچنے سے روکنے کی سبھی کوششیں کریں جہاں بھارت کی 66فیصد آبادی رہتی ہے۔

بھارتی دیہات کیلئے حفاظتی ڈھال کی ضرورت!
بھارتی دیہات کیلئے حفاظتی ڈھال کی ضرورت!
author img

By

Published : Mar 27, 2020, 9:21 PM IST

اگر دیہات کو کرونا وائرس سے تحفظ ملا تو بھارت بحیثیتِ ملک کے محفوظ ہوسکتا ہے

اب جبکہ کووِڈ19بھارت میں پیر جمانے لگا ہے مرکزی سرکار اور مختلف ریاستی سرکاریں مشترکہ طور پر اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ یہ کورونا وائرس بھارت میں بہت خطرناک وبا ثابت نہیں ہونے پائے۔ملک بھر میں جنتا کرفیو کی کامیابی کے بعد کئی ریاستی سرکاروں، بشمولِ آندھرا پردیش اور تلنگانا نے دیگر ریاستوں کے ساتھ اپنی سرحدین بند کردی ہیں اور ٹرانسپورٹ کو روک کر لوگوں کو گھروں میں بنے رہنے کی ہدایت دی ہے۔حالانکہ مرکزی سرکار نے کورونا وائرس سے متاثر82اضلاع میں مکمل لاک ڈاون کیلئے کہا ہے کہ بعض جگہوں پر عوام کی لاپرواہی کان کھڑا کردینے والی ہے۔حالانکہ وزیرِ اعظم نے صاف کہا ہوا ہے کہ لاک ڈاون کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیئے۔یہ تالہ بندی دراصل اس جنگ کا پہلا پڑاؤ ہے جو ہمیں بحیثیتِ ملک کورونا وائرس کے خلاف لڑنا پڑسکتی ہے کیونکہ اٹلی جیسا ملک جہاں کے لوگوں نے ابتداءمیں خود کو تنہا کرنے کی ضرورت پر کوئی توجہ نہیں دی لیکن اب تباہ ہونے کے بعدمارے خوف کے تھر تھرا رہا ہے۔

چین سے پھیلنے والے ناول کرونا وائرس نے ابھی تک دنیا کے مختلف ممالک میں ہزاروں لوگوں کی جان لے چکا ہے اور لاکھوں دیگر لوگ اس سے متاثر ہوکر جان بچانے کی کوشش میں ہیں۔بھارت میں یہ وائرس بیرون ممالک رہنے والوں کے ذریعہ یہاں آکر اب اپنے دوسرے مرحلے میں ہے لہٰذا لوگوں کو گھروں میں قید رہکر اس وائرس کو پورے سماج میں پھیلانے سے پرہیز کرنے کی کوشش کرنی چاہیئےجیسا کہ حکومت نے ہدایت دی ہوئی ہے،۔چونکہ بھارت میں صحتِ عامہ کے نظام کی حالت کسی سے چھپی نہیں ہے ملک کے دیہات میں اس وائرس کو پھیلنے سے بلکہ اس کی پہنچ کو روکنے کی شدید ضرورت ہے۔ملک کی سلامتی اس بات میں ہے کہ دیہات کی سرحدوں کو فوری طور پر بند کردیا جائے اور ملک بھر کے دیہات میں تالہ بندی کرادی جائے۔تاہم یہ حکومت کے ساتھ ساتھ خود ملک کے عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وائرس کو دیہات میں پہنچنے سے روکنے کی سبھی کوششیں کریں جہاں بھارت کی 66فیصد آبادی رہتی ہے۔

ان حالات میں جب مہلک وائرس پھیل رہا ہوں اور جان پر بن آئی ہو ایسے میں قرنطینہ کوئی سزا نہیں بلکہ ایک حفاظتی ڈھال ہے۔جو لوگ قرنطینہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ نہ صرف اپنے آپ کا نقصان کرتے ہیں بلکہ ایسے لوگ دیگر سینکڑوں میں وائرس پھیلانے کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔فی الواقع قرنطینہ کسی غیر علامتی شخص کے ذریعہ وائرس پھیلنے سے روکنے کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے۔

چین میں ناول کورونا وائرس کو پہلے ایک ہزار مریضوں میں پھیلنے میں 6دن لگے ، پھر4دنوں میں یہ وائرس5ہزار لوگوں میں پھیل گیااور اگلے 3دن میں یہ بیماری مزید 10ہزار لوگوں کو لگ گئی تھی۔امریکہ اور اسپین میں تو پہلے 10ہزار لوگوں میں وائرس پھیلنے میں محض2دن لگے۔یہ اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ حکوت اور عوام کسی بھی صورت میں لاپرواہی اور سُستی تک متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔چین کی جانب سے23جنوری کو ہُبی خطہ کو قرنطینہ بنادینا وائرس کو ووہان تک محدود رہنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوچکا ہے۔

کورونا وائرس کے مرکز ووہان میں شرحِ اموات 3.1فیصد رہی جبکہ دیگر علاقوں میں یہ شرح0.16 فیصد رہی ہے جس سے قرنطینہ کی ترکیب کے کارگر ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔جس طرح چین نے پڑوسی شہروں اور گاوں کی سرحدوں کو بند کرکے وہاں رکاوٹیں کھڑا کیں وہ سبھی لوگوں کیلئے قابلِ تقلید ہے جبکہ یہی حکمتِ عملی امریکی ریاست االاسکا میں بھی اپنائی جارہی ہے۔حتیٰ کہ اٹلی،جہاں 6000سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، وہاں بھی درونِ خانہ سفر کو پوری طرح بند کرچکی ہے۔بھارت میں اس وبا کی تباہ کاریوں کو قابو میں رکھنے کیلئے دیہات کا ترجیحی بنیادوں پر محفوظ کیا جانا ضروری ہے۔

فی الوقت کورونا وائرس کیلئے کہیں کوئی کارگر دوائی نہیں ہے اور یہ بھی کوئی نہیں جانتا ہے کہ کووِڈ19کیلئے ویکسین کب تک تیار ہوسکتا ہے۔اس دوران حکومت کو لاکھوں جانوں کو بچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے صحتِ عامہ کے جیسے تیسے نظام کو پوری طرح دھڑام سے گرنے نہیں دینا چاہیئے۔دیہات اور چھوٹے قصبوں کو خود بخود اس خطرے کو بھانپتے ہوئے خود تنہائی اختیار کر لینی چاہیئے۔یاد رکھنا چاہیئے کہ اسپین سے پیدا شدہ فلو کی وجہ سے جتنی اموات بھارت میں ہوئی ہیں اتنی عالمی جنگِ اول میں بھی نہیں ہوئی ہیں۔

یہ وقت ہے جب حکومت اور عوام ایک صف پر آکر کسی اختلاف کے بغیر باہمی تعاون کے ساتھ کام کریں۔مرکزی اور ریاستی سرکاروں کو یقینی بنانا ہوگا کہ تالہ بند سبھی شہروں، قصبوں اور دیہات میں اشیائے ضروری کی سپالائی میں کوئی مسئلہ درپیش نہ آئے۔بھارت میں50کروڑ مزدور طبقہ کا 85فیصد منظم شعبہ سے متعلق ہے ،ملک میں یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں کی بڑی تعداد دیہی علاقوں میں ہے اور حکومت کو اس طبقہ کا خیال رکھتے ہوئے انکی ضروریات کا انتظام کرنا اور ضروریات کی قلت سے نٹنا ہوگا۔ اگر بھارت کے دیہات وائرس کی مار سے محفوظ رہے تو بھارت بحیثیتِ ملک کے بڑی حد تک محفوظ ہوسکتا ہے۔لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے کہ جب ملک کے سبھی شہری اور حکومت ایک طرح سوچیں اور ایک طرح کریں۔کووِڈ19کو ہرانے کیلئے ملک کا ایک ہوکر چلنا انتہائی ضروری ہے۔

اگر دیہات کو کرونا وائرس سے تحفظ ملا تو بھارت بحیثیتِ ملک کے محفوظ ہوسکتا ہے

اب جبکہ کووِڈ19بھارت میں پیر جمانے لگا ہے مرکزی سرکار اور مختلف ریاستی سرکاریں مشترکہ طور پر اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ یہ کورونا وائرس بھارت میں بہت خطرناک وبا ثابت نہیں ہونے پائے۔ملک بھر میں جنتا کرفیو کی کامیابی کے بعد کئی ریاستی سرکاروں، بشمولِ آندھرا پردیش اور تلنگانا نے دیگر ریاستوں کے ساتھ اپنی سرحدین بند کردی ہیں اور ٹرانسپورٹ کو روک کر لوگوں کو گھروں میں بنے رہنے کی ہدایت دی ہے۔حالانکہ مرکزی سرکار نے کورونا وائرس سے متاثر82اضلاع میں مکمل لاک ڈاون کیلئے کہا ہے کہ بعض جگہوں پر عوام کی لاپرواہی کان کھڑا کردینے والی ہے۔حالانکہ وزیرِ اعظم نے صاف کہا ہوا ہے کہ لاک ڈاون کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیئے۔یہ تالہ بندی دراصل اس جنگ کا پہلا پڑاؤ ہے جو ہمیں بحیثیتِ ملک کورونا وائرس کے خلاف لڑنا پڑسکتی ہے کیونکہ اٹلی جیسا ملک جہاں کے لوگوں نے ابتداءمیں خود کو تنہا کرنے کی ضرورت پر کوئی توجہ نہیں دی لیکن اب تباہ ہونے کے بعدمارے خوف کے تھر تھرا رہا ہے۔

چین سے پھیلنے والے ناول کرونا وائرس نے ابھی تک دنیا کے مختلف ممالک میں ہزاروں لوگوں کی جان لے چکا ہے اور لاکھوں دیگر لوگ اس سے متاثر ہوکر جان بچانے کی کوشش میں ہیں۔بھارت میں یہ وائرس بیرون ممالک رہنے والوں کے ذریعہ یہاں آکر اب اپنے دوسرے مرحلے میں ہے لہٰذا لوگوں کو گھروں میں قید رہکر اس وائرس کو پورے سماج میں پھیلانے سے پرہیز کرنے کی کوشش کرنی چاہیئےجیسا کہ حکومت نے ہدایت دی ہوئی ہے،۔چونکہ بھارت میں صحتِ عامہ کے نظام کی حالت کسی سے چھپی نہیں ہے ملک کے دیہات میں اس وائرس کو پھیلنے سے بلکہ اس کی پہنچ کو روکنے کی شدید ضرورت ہے۔ملک کی سلامتی اس بات میں ہے کہ دیہات کی سرحدوں کو فوری طور پر بند کردیا جائے اور ملک بھر کے دیہات میں تالہ بندی کرادی جائے۔تاہم یہ حکومت کے ساتھ ساتھ خود ملک کے عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وائرس کو دیہات میں پہنچنے سے روکنے کی سبھی کوششیں کریں جہاں بھارت کی 66فیصد آبادی رہتی ہے۔

ان حالات میں جب مہلک وائرس پھیل رہا ہوں اور جان پر بن آئی ہو ایسے میں قرنطینہ کوئی سزا نہیں بلکہ ایک حفاظتی ڈھال ہے۔جو لوگ قرنطینہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ نہ صرف اپنے آپ کا نقصان کرتے ہیں بلکہ ایسے لوگ دیگر سینکڑوں میں وائرس پھیلانے کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔فی الواقع قرنطینہ کسی غیر علامتی شخص کے ذریعہ وائرس پھیلنے سے روکنے کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے۔

چین میں ناول کورونا وائرس کو پہلے ایک ہزار مریضوں میں پھیلنے میں 6دن لگے ، پھر4دنوں میں یہ وائرس5ہزار لوگوں میں پھیل گیااور اگلے 3دن میں یہ بیماری مزید 10ہزار لوگوں کو لگ گئی تھی۔امریکہ اور اسپین میں تو پہلے 10ہزار لوگوں میں وائرس پھیلنے میں محض2دن لگے۔یہ اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ حکوت اور عوام کسی بھی صورت میں لاپرواہی اور سُستی تک متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔چین کی جانب سے23جنوری کو ہُبی خطہ کو قرنطینہ بنادینا وائرس کو ووہان تک محدود رہنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوچکا ہے۔

کورونا وائرس کے مرکز ووہان میں شرحِ اموات 3.1فیصد رہی جبکہ دیگر علاقوں میں یہ شرح0.16 فیصد رہی ہے جس سے قرنطینہ کی ترکیب کے کارگر ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔جس طرح چین نے پڑوسی شہروں اور گاوں کی سرحدوں کو بند کرکے وہاں رکاوٹیں کھڑا کیں وہ سبھی لوگوں کیلئے قابلِ تقلید ہے جبکہ یہی حکمتِ عملی امریکی ریاست االاسکا میں بھی اپنائی جارہی ہے۔حتیٰ کہ اٹلی،جہاں 6000سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، وہاں بھی درونِ خانہ سفر کو پوری طرح بند کرچکی ہے۔بھارت میں اس وبا کی تباہ کاریوں کو قابو میں رکھنے کیلئے دیہات کا ترجیحی بنیادوں پر محفوظ کیا جانا ضروری ہے۔

فی الوقت کورونا وائرس کیلئے کہیں کوئی کارگر دوائی نہیں ہے اور یہ بھی کوئی نہیں جانتا ہے کہ کووِڈ19کیلئے ویکسین کب تک تیار ہوسکتا ہے۔اس دوران حکومت کو لاکھوں جانوں کو بچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے صحتِ عامہ کے جیسے تیسے نظام کو پوری طرح دھڑام سے گرنے نہیں دینا چاہیئے۔دیہات اور چھوٹے قصبوں کو خود بخود اس خطرے کو بھانپتے ہوئے خود تنہائی اختیار کر لینی چاہیئے۔یاد رکھنا چاہیئے کہ اسپین سے پیدا شدہ فلو کی وجہ سے جتنی اموات بھارت میں ہوئی ہیں اتنی عالمی جنگِ اول میں بھی نہیں ہوئی ہیں۔

یہ وقت ہے جب حکومت اور عوام ایک صف پر آکر کسی اختلاف کے بغیر باہمی تعاون کے ساتھ کام کریں۔مرکزی اور ریاستی سرکاروں کو یقینی بنانا ہوگا کہ تالہ بند سبھی شہروں، قصبوں اور دیہات میں اشیائے ضروری کی سپالائی میں کوئی مسئلہ درپیش نہ آئے۔بھارت میں50کروڑ مزدور طبقہ کا 85فیصد منظم شعبہ سے متعلق ہے ،ملک میں یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں کی بڑی تعداد دیہی علاقوں میں ہے اور حکومت کو اس طبقہ کا خیال رکھتے ہوئے انکی ضروریات کا انتظام کرنا اور ضروریات کی قلت سے نٹنا ہوگا۔ اگر بھارت کے دیہات وائرس کی مار سے محفوظ رہے تو بھارت بحیثیتِ ملک کے بڑی حد تک محفوظ ہوسکتا ہے۔لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے کہ جب ملک کے سبھی شہری اور حکومت ایک طرح سوچیں اور ایک طرح کریں۔کووِڈ19کو ہرانے کیلئے ملک کا ایک ہوکر چلنا انتہائی ضروری ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.