پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اپنے خیالات کے اظہار کے لئے مشروط یا غیر مشروط معافی مانگنا ان کے لیے مناسب نہیں ہے۔ وہ اپنی باتوں پر اب بھی اسی طرح قائم ہیں جیسے کہ پہلے تھے۔
پرشانت بھوشن نے عدالت میں کہا کہ معافی مانگنا میرے ضمیر اور کسی ادارے کی توہین کی طرح ہوگا۔
واضح رہے کہ پرشانت بھوشن نے دو متنازع ٹویٹس کیے تھے، جسے عدالت عظمی نے توہین عدالت کے زمرے میں رکھا اور ان کے خلاف سماعت کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹویٹس ججز کے خلاف ان کی ذاتی رائے ہے اور وہ انصاف کے عمل میں کبھی روکاوٹ پیدا نہیں کرتے ہیں۔
پرشانت بھوشن نے مہاتما گاندھی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا 'میں رحم کی اپیل نہیں کرتا ہوں۔ میرے مستند بیان پر عدالت کی جانب سے جو بھی سزا ملے گی، وہ مجھے قبول ہے، بھوشن نے مزید کہا 'یہ افسوسناک ہے کہ مجھے توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔'
اس سے قبل پرشانت بھوشن نے مہاتما گاندھی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ 'میں رحم کی اپیل نہیں کرتا ہوں۔ میرے مستند بیان پر عدالت کی جانب سے جو بھی سزا ملے گی، وہ مجھے قبول ہے، بھوشن نے مزید کہا 'یہ افسوسناک ہے کہ مجھے توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔'
اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے عدالت سے استدعا کی کہ پرشانت بھوشن کو سزا نہ دی جائے کیونکہ انھیں پہلے ہی توہین عدالت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔
عدالت نے کہا کہ وہ اس وقت تک اٹارنی جنرل کی اس درخواست پر غور نہیں کرسکتے جب تک کہ پرشانت بھوشن اپنے ٹویٹ پر معذرت نہ کرنے کے اپنے پہلے موقف پر نظر ثانی کرتے ہیں۔
عدالت نے سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون سے توہین عدالت کے قانونی پہلو پر پیش کش کرنے کو کہا اور بھوشن کو نظرثانی کے لئے دو دن کا وقت دیا۔
جسٹس ارون مشرا کی سربراہی میں بنچ نے بھوشن کو یقین دلایا کہ اس وقت تک سزا سے متعلق کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی جب تک کہ انہیں توہین عدالت میں کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کا فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے 14 اگست کو بھوشن کو سابق چیف جسٹس پر دو ٹویٹس کے سبب توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا تھا۔ جسٹس ارون مشرا، جسٹس بی آر گوی اور جسٹس کرشنا مراری پر مشتمل بنچ نے پرشانت بھوشن کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا۔