ETV Bharat / bharat

کورونا وائرس کا بحران: نئے سیاسی اور اقتصادی ماڈلز کی ضرورت - کورونا کے بعد اقتصادیت پر کیا اثر ہوگا

آئی ڈی کھجوریہ اور سندیپ پانڈے نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے بحران نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ ہم نے اپنے قدرتی اور ماحولیاتی نظام کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کورونا وائرس کے خطرے نے سب انسانوں کو برابری پر لاکھڑا کیا ہے، یہ وائرس کوئی تفریق اور تمیز نہیں کرتا ہے۔ تمام انسان برابر ہیں کے معنی یہ ہیں کہ اس زمین اور اس کے بے شمار وسائل پر ہر ایک انسان کے مساوی حقوق ہیں۔ کسی کو خاص کر پرائیویٹ کارپوریشنوں کو اپنے منافع کے لئے قدرتی وسائل کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ترقی کا یہ ماڈل ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ کورونا وائرس جیسے خطرے کے سامنے یہ ماڈل پائیدار نہیں ہو سکتا۔ اب کسی کو مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ہر کسی کو اپنی بقا کی فکر ہے۔ لاک ڈاؤن کے اس دورانیہ میں انسان نے کم سے کم بنیادی ضرورتوں کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔

کورونا وائرس کا بحران :نئے سیاسی اور اقتصادی ماڈلوں کی ضرورت
کورونا وائرس کا بحران :نئے سیاسی اور اقتصادی ماڈلوں کی ضرورت
author img

By

Published : May 20, 2020, 4:37 PM IST

انسان گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے قدرت تازہ ہوا میں سانس لے رہی ہے۔ ہوا تازہ ہے، درخت اور زیادہ سبز اور ہرے بھرے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ دریا مزید صاف و شفاف نظر آ رہے ہیں۔ یہ اس بات کا سیدھا ثبوت ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے لئے انسان ذمہ دار ہے۔

اس میں ایک اہم پیغام یہ ہے کہ انسان فطرت کا آقا ہے اور نہ کبھی فطرت کو تسخیر کرنے کا خیال اسے آنا چاہئے ۔الٹا سچ تو یہ ہے کہ انسان کی بقا کا انحصار فطرت پر ہے ۔یہ فطرت ہے جو انسانوں کو رزق عطا کرتی ہے۔ اس لئے وہ ان کی موت و حیات پر بھی قادر ہے ۔انسان جاندار اور غیر جاندار کے اس پیچیدہ کھیل میں محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے ۔انسانی زندگی کے سپورٹ کیلئے ایک تواز ن کی ضرورت ہے کیونکہ فطرت کثرت میں وحدت کی ایک شاندار مثال ہے اور یہ وہ سچ ہے جو موجودہ بحرانی صورتحال میں ابھر کر سامنے آئی ہے ۔انسان کو کثرت میں وحدت کا احترام کرنا سیکھنا چاہئے ۔انسان کا طرز زندگی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو نا چاہئے اور اسے اس نازک توازن میں کسی بھی صورت میں خلل نہیں ڈالنا چاہئے ۔اس کا یہ مطلب ہوا کہ انسان کی ضرورتوں کے بغیر ایسی کوئی بھی چھوٹی بڑی سرگرمی نظام فطرت کے ساتھ مداخلت کے مترادف ہو گی، جو بالآخر انسانوں کیلئے ہی مسائل کا باعث بن سکتی ہے ۔

کل تک زندگی کی ضرورتوں کیلئے جو دوڑ، جو جدوجہد ناگزیر سمجھی جا رہی تھی، آج وہ ایک دم سے رک گئی ہے اور اس کا پہیہ جام ہو گیا ہے ۔جو لوگ ہوائی جہازوں میں سفر کرتے تھے، ٹرینوں میں سفر کو وقت کا زیاں تصور کرتے تھے آج وہ گھروں سے باہر قدم نہیں رکھ پا رہے ہیں۔روپے پیسہ اہم ہے، لیکن یہ کسی کام کی نہیں ہے جب آپ اپنی ضرورت کا کوئی سامان بازار سے خرید نہیں سکتے ہیں ۔اب اس بات کا بھی احساس ہو نے لگا ہے کہ زندہ رہنے کیلئے ہمیں اتنی بھی دولت اور وسائل کی ضرورت نہیں ہے،جتنی ہم نے اکھٹا کر رہی ہے ۔

کورونا وائرس کے خطرے نے سب انسانوں کو برابری پر لاکھڑا کیا ہے، یہ وائرس کوئی تفریق اور تمیز نہیں کرتا ہے ۔امیروں اور طاقتوروں کو اس وائرس سے اتنا ہی خطرہ محسوس ہو رہا ہے جتنا کہ کسی غریب اور مفلس کو ۔اس سب میں ایک پیغام ہے اور وہ یہ ہے کہ مال و دولت اور دوسرے معیارات پر انسانوں کو جن مختلف طبقوں اور خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اس کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔تنازعات اور فتوحات کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ایک انسان دوسرے انسان پر فتح پا سکتا ہے۔ لیکن دونوں کو کورونا وائرس کے آگے سرنڈر کرنا ہو گا ۔اس لئے فطرت کی نظر میں تمام انسان ایک جیسے اور برا بر ہیں یہ حقیقت ایک بار پھر ابھر کر سامنے آگئی ہے اور یہی فطرت کا اصول بھی ہے۔ہر ایک کو زندہ رہنے کا مساوی حق ہے اس بات کو پہلے کے مقابلے میں اب زیادی تسلیم کیا جانے لگا ہے ۔ اس لئے جمہوریت وہ واحد راستہ ہے جس میں ہم کام کر سکتے ہیں اور جس میں ہر ایک کو شرکت کرنے کا مساوی موقع فراہم ہو تا ہے ۔

تمام انسان برابر ہیں کے معنی یہ ہیں کہ اس زمین اور اس کے بے شمار وسائل پر ہر ایک انسان کے مساوی حقوق ہیں ۔کسی کو خاص کر پرائیویٹ کارپوریشنوں کو اپنے منافع کیلئے قدرتی وسائل کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں ہو نی چاہئے ۔ترقی کا یہ ماڈل ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ۔کورونا وائرس جیسے خطرے کے سامنے یہ ماڈل پائیدار نہیں ہو سکتا ۔اب کسی کو مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) کی شرح کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ ہر کسی کو اپنی بقا کی فکر ہے ۔لاک ڈاؤن کے اس دورانیہ میں انسان نے کم سے کم بنیادی ضرورتوں کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے ۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ صارفیت کے ماڈل کو اب ضرورت پر مبنی ماڈل کیلئے جگہ ہموار کرنی ہو گی ۔زیادہ سے زیادہ منافع خوری کی جگہ بقا کیلئے کیا ضروری ہے اس بات کو اہمیت دینی ہوگی ۔تعاون نہ کہ مقابلہ آرائی عام جذبہ ہو گا۔اگر لاک ڈاؤن کے دوران لوگ ضرورت مندوں کی مدد کیلئے آگے نہیں آئے ہوتے تو مسائل اور تکالیف بڑھ جاتے۔اس لئے مساوات تمام پالیسوں کا بنیادی عنصر ہو نا چاہئے سیاست یامعیشت نہیں ۔

مخاصمت کی سیاست اور مختلف شناختوں جیسے ثقافتی، لسانی، نسلی، مذہبی اور قومی میں نفرت کے کوئی معنی نہیں ہو نے چاہئیں اور اسے مسترد کیا جانا چاہئے۔ اس پر بھائی چارے اور ایک دوسرے سے یکجہتی کو فوقیت ملنی چاہئے ۔

فوجی قوت کے اعتبار سے دنیا کا سب طاقتور ملک امریکہ نے کورونا وائرس سے سب سے زیادہ ہلاکتیں دیکھ لیں ۔ جس ملک نے کسی جنگ میں بھی اتنی ہلاکتوں کا تصور نہیں کیا ہو گا وہ کورونا وائرس کے سامنے بے بس نظر آیا۔ اتنے بڑے دفاعی اخراجات کس کام کے اگر وہ اپنے ملک کے شہریوں کو نہیں بچا پا سکے گا ۔ انسان کو اس وائرس سے بچانے کیلئے سب سے طاقتور جوہری اور کیمیائی ہتھیار مکمل طور پر غیر موثر ثابت ہو ئے ۔

یقینا جنگ کیلئے تیاری نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے سے ہی انسانیت کو بچایا جا سکے گا ۔اس لئے تمام عداوتیں، مخاصمتیں اور دشمنیوں کو بھلا کر 'نا جنگ‘ معاہدوں پر دستخط کئے جانے چاہئیں۔اگر ممکن ہو سکے تو اقوام متحدہ کے توسط سے مہلک ہتھیاروں کے ذخائر کو تلف کیا جائے ۔اقوام متحدہ گلوبل گورننس کیلئے ایک اہم عالمی ادارہ بن جانا چاہئے ، ان ممالک کیلئے جہاں جمہوری نظام ہو۔نئے ورلڈآرڈر میں سلامتی کونسل اور ویٹو پاور کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ہر ایک ملک کو اقوام متحدہ میں برابر کا ووٹ ہونا چاہئے ۔ مختلف عالمی اداے جیسے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ورلڈ بینک ،ورلڈ ٹریڈآرگنائزیشن، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ، یونیسیف مکمل طور پر لیس کرنا ہو گا تاکہ وہ مستقبل میں فطرتی اور سماجی چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں ۔

موجودہ وبائی بحران میں جب حکومتوں سے یہ توقع ہے کہ وہ سماجی بہبود کے اخراجات میں اضافہ کریں گی ‘ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف اور اقوام متحدہ کے دوسرے ادارے اس ضمن میں پیچھے کیوں ہیں ؟

الغرض ترقی کا ایک نیا ماڈل ‘ جس کی بنیاد منافع خوری پر نہیں بلکہ تمام لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے پر رکھی گئی ہو ‘کو وضع کرنا ہو گا ۔اسی طرح سیاسی حکمرانی کا بھی ایک نیا ماڈل جس کی بنیاد مقابلہ آرائی پر نہیں بلکہ بقائے باہم پر ہو کو وجود میں لانا ہو گا۔انسانوں کی بقاء ایسی تبدیلی پر منحصر ہو گی ۔

انسان گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے قدرت تازہ ہوا میں سانس لے رہی ہے۔ ہوا تازہ ہے، درخت اور زیادہ سبز اور ہرے بھرے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ دریا مزید صاف و شفاف نظر آ رہے ہیں۔ یہ اس بات کا سیدھا ثبوت ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے لئے انسان ذمہ دار ہے۔

اس میں ایک اہم پیغام یہ ہے کہ انسان فطرت کا آقا ہے اور نہ کبھی فطرت کو تسخیر کرنے کا خیال اسے آنا چاہئے ۔الٹا سچ تو یہ ہے کہ انسان کی بقا کا انحصار فطرت پر ہے ۔یہ فطرت ہے جو انسانوں کو رزق عطا کرتی ہے۔ اس لئے وہ ان کی موت و حیات پر بھی قادر ہے ۔انسان جاندار اور غیر جاندار کے اس پیچیدہ کھیل میں محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے ۔انسانی زندگی کے سپورٹ کیلئے ایک تواز ن کی ضرورت ہے کیونکہ فطرت کثرت میں وحدت کی ایک شاندار مثال ہے اور یہ وہ سچ ہے جو موجودہ بحرانی صورتحال میں ابھر کر سامنے آئی ہے ۔انسان کو کثرت میں وحدت کا احترام کرنا سیکھنا چاہئے ۔انسان کا طرز زندگی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو نا چاہئے اور اسے اس نازک توازن میں کسی بھی صورت میں خلل نہیں ڈالنا چاہئے ۔اس کا یہ مطلب ہوا کہ انسان کی ضرورتوں کے بغیر ایسی کوئی بھی چھوٹی بڑی سرگرمی نظام فطرت کے ساتھ مداخلت کے مترادف ہو گی، جو بالآخر انسانوں کیلئے ہی مسائل کا باعث بن سکتی ہے ۔

کل تک زندگی کی ضرورتوں کیلئے جو دوڑ، جو جدوجہد ناگزیر سمجھی جا رہی تھی، آج وہ ایک دم سے رک گئی ہے اور اس کا پہیہ جام ہو گیا ہے ۔جو لوگ ہوائی جہازوں میں سفر کرتے تھے، ٹرینوں میں سفر کو وقت کا زیاں تصور کرتے تھے آج وہ گھروں سے باہر قدم نہیں رکھ پا رہے ہیں۔روپے پیسہ اہم ہے، لیکن یہ کسی کام کی نہیں ہے جب آپ اپنی ضرورت کا کوئی سامان بازار سے خرید نہیں سکتے ہیں ۔اب اس بات کا بھی احساس ہو نے لگا ہے کہ زندہ رہنے کیلئے ہمیں اتنی بھی دولت اور وسائل کی ضرورت نہیں ہے،جتنی ہم نے اکھٹا کر رہی ہے ۔

کورونا وائرس کے خطرے نے سب انسانوں کو برابری پر لاکھڑا کیا ہے، یہ وائرس کوئی تفریق اور تمیز نہیں کرتا ہے ۔امیروں اور طاقتوروں کو اس وائرس سے اتنا ہی خطرہ محسوس ہو رہا ہے جتنا کہ کسی غریب اور مفلس کو ۔اس سب میں ایک پیغام ہے اور وہ یہ ہے کہ مال و دولت اور دوسرے معیارات پر انسانوں کو جن مختلف طبقوں اور خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اس کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔تنازعات اور فتوحات کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ایک انسان دوسرے انسان پر فتح پا سکتا ہے۔ لیکن دونوں کو کورونا وائرس کے آگے سرنڈر کرنا ہو گا ۔اس لئے فطرت کی نظر میں تمام انسان ایک جیسے اور برا بر ہیں یہ حقیقت ایک بار پھر ابھر کر سامنے آگئی ہے اور یہی فطرت کا اصول بھی ہے۔ہر ایک کو زندہ رہنے کا مساوی حق ہے اس بات کو پہلے کے مقابلے میں اب زیادی تسلیم کیا جانے لگا ہے ۔ اس لئے جمہوریت وہ واحد راستہ ہے جس میں ہم کام کر سکتے ہیں اور جس میں ہر ایک کو شرکت کرنے کا مساوی موقع فراہم ہو تا ہے ۔

تمام انسان برابر ہیں کے معنی یہ ہیں کہ اس زمین اور اس کے بے شمار وسائل پر ہر ایک انسان کے مساوی حقوق ہیں ۔کسی کو خاص کر پرائیویٹ کارپوریشنوں کو اپنے منافع کیلئے قدرتی وسائل کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں ہو نی چاہئے ۔ترقی کا یہ ماڈل ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ۔کورونا وائرس جیسے خطرے کے سامنے یہ ماڈل پائیدار نہیں ہو سکتا ۔اب کسی کو مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) کی شرح کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ ہر کسی کو اپنی بقا کی فکر ہے ۔لاک ڈاؤن کے اس دورانیہ میں انسان نے کم سے کم بنیادی ضرورتوں کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے ۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ صارفیت کے ماڈل کو اب ضرورت پر مبنی ماڈل کیلئے جگہ ہموار کرنی ہو گی ۔زیادہ سے زیادہ منافع خوری کی جگہ بقا کیلئے کیا ضروری ہے اس بات کو اہمیت دینی ہوگی ۔تعاون نہ کہ مقابلہ آرائی عام جذبہ ہو گا۔اگر لاک ڈاؤن کے دوران لوگ ضرورت مندوں کی مدد کیلئے آگے نہیں آئے ہوتے تو مسائل اور تکالیف بڑھ جاتے۔اس لئے مساوات تمام پالیسوں کا بنیادی عنصر ہو نا چاہئے سیاست یامعیشت نہیں ۔

مخاصمت کی سیاست اور مختلف شناختوں جیسے ثقافتی، لسانی، نسلی، مذہبی اور قومی میں نفرت کے کوئی معنی نہیں ہو نے چاہئیں اور اسے مسترد کیا جانا چاہئے۔ اس پر بھائی چارے اور ایک دوسرے سے یکجہتی کو فوقیت ملنی چاہئے ۔

فوجی قوت کے اعتبار سے دنیا کا سب طاقتور ملک امریکہ نے کورونا وائرس سے سب سے زیادہ ہلاکتیں دیکھ لیں ۔ جس ملک نے کسی جنگ میں بھی اتنی ہلاکتوں کا تصور نہیں کیا ہو گا وہ کورونا وائرس کے سامنے بے بس نظر آیا۔ اتنے بڑے دفاعی اخراجات کس کام کے اگر وہ اپنے ملک کے شہریوں کو نہیں بچا پا سکے گا ۔ انسان کو اس وائرس سے بچانے کیلئے سب سے طاقتور جوہری اور کیمیائی ہتھیار مکمل طور پر غیر موثر ثابت ہو ئے ۔

یقینا جنگ کیلئے تیاری نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے سے ہی انسانیت کو بچایا جا سکے گا ۔اس لئے تمام عداوتیں، مخاصمتیں اور دشمنیوں کو بھلا کر 'نا جنگ‘ معاہدوں پر دستخط کئے جانے چاہئیں۔اگر ممکن ہو سکے تو اقوام متحدہ کے توسط سے مہلک ہتھیاروں کے ذخائر کو تلف کیا جائے ۔اقوام متحدہ گلوبل گورننس کیلئے ایک اہم عالمی ادارہ بن جانا چاہئے ، ان ممالک کیلئے جہاں جمہوری نظام ہو۔نئے ورلڈآرڈر میں سلامتی کونسل اور ویٹو پاور کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ہر ایک ملک کو اقوام متحدہ میں برابر کا ووٹ ہونا چاہئے ۔ مختلف عالمی اداے جیسے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ورلڈ بینک ،ورلڈ ٹریڈآرگنائزیشن، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ، یونیسیف مکمل طور پر لیس کرنا ہو گا تاکہ وہ مستقبل میں فطرتی اور سماجی چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں ۔

موجودہ وبائی بحران میں جب حکومتوں سے یہ توقع ہے کہ وہ سماجی بہبود کے اخراجات میں اضافہ کریں گی ‘ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف اور اقوام متحدہ کے دوسرے ادارے اس ضمن میں پیچھے کیوں ہیں ؟

الغرض ترقی کا ایک نیا ماڈل ‘ جس کی بنیاد منافع خوری پر نہیں بلکہ تمام لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے پر رکھی گئی ہو ‘کو وضع کرنا ہو گا ۔اسی طرح سیاسی حکمرانی کا بھی ایک نیا ماڈل جس کی بنیاد مقابلہ آرائی پر نہیں بلکہ بقائے باہم پر ہو کو وجود میں لانا ہو گا۔انسانوں کی بقاء ایسی تبدیلی پر منحصر ہو گی ۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.