سنیچر کو نیپال کی حکومت نے ملک کے نئے نقشے کو منظوری دے دی ہے، نیپال کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے ملک کے نئے نقشے پر پیش کردہ ترمیمی بل کو منظوری دے دی۔
واضح رہے کہ اب اسے نیشنل اسمبلی میں بھیجا جائے گا، جہاں ایک مرتبہ پھر اس نقشے کو ہری جھنڈی ملنا طے ہے۔ اقتداری نیپال کمیونسٹ پارٹی کے پاس یہاں دو تہائی اکثریت ہے۔
خیال رہے کہ اس نئے نقشے میں نیپال نے بھارت کے کئی علاقوں کو اپنا بتایا ہے، سوال اٹھتا ہے کہ کیا نیپال کے پاس ثبوت ہے کہ وہ بھارت کے علاقو پر دعویٰ کرسکے۔
ایسا کہا جارہا ہے ک ہدراصل نیپال بھی یہ خود مان رہا ہے کہ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، نئے نقشے کو ایوان میں پاس کرنے کے بعد نیپال کی حکومت نے ایک کمیٹی بنائی ہے۔
اس کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ ان دستاویز کی تلاش کرے جو ثابت کرسکیں کہ جن علاقوں پر نیپال نے دعویٰ کیا ہے، وہ اسی کا ہے، جبکہ یہ کسی بھی حکومت کا بڑا ہی مضحکہ خیز اقدام ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ اس کمیٹی میں نو لوگوں کو رکھا گیا ہے جس کی قیادت وشنو راج اپریتی کریں گے، جو فی الحال حکومت کی پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔
وہیں دوسری جانب کمیٹی بنانے کے فیصلے کو لیکر نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی کی مقامی میڈیا میں تنقید ہورہی ہے۔ وہاں کے کئی ایکسپرٹ اور رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کمیٹی بنانا نیپاک کے حق کو اور کمزور کرتا ہے۔
نیپال کے مشہو و معروف کارٹوگرافر بدھی نارائن شریشٹھ نے نیپالی اخبار کاٹھمانڈو پوسٹ سے بات چیت میں کہا کہ اگر حکومت کے پاس پہلے سے ثبوت نہیں تھے تو پھر آخر کیوں جھوٹ دعوے کیے گئے۔
وہیں سابق سفیر دنیش بھٹرائی نے کہا کہ ٹیم بنانے کا مطلب یہ ہے کہ گھوڑے کے آنے سے پہلے ہی آپ نے گاڑی تیار کرلی، انہوں نے کہا کہ اگر اب بات چیت ہوتی ہے تو پھر بھارت کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔
اس درمیان انوراگ شریواستو نے کووڈ-19 وبا سے لڑنے میں بھارت کے ذریعہ نیپال کو دی جانے والی مدد پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم نے نیپال کو تقریباً 25 ٹن میڈیکل اشیا فراہم کی ہے، جس میں پیراسیٹا مال اور ہائیڈروکسیکلوروکین دوائیں، چیک اپ کٹ اور دیگر میڈیکل سے جڑی اشیا شامل ہیں'۔
واضح رہے کہ نیپال ان ممالک کی پہلی فہرست میں تھا، جن کے لیے بھارت نے لائسنس کلاس میں لے جانے کے بعد ایچ سی کیو کے ایکسپورٹ کو منظوری دے دی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت نے انسانی بنیاد پر بیرون ملک میں پھنسے نیپالی شہریوں کو واپس لانے میں مدد کی تھی۔
سب سے ضروری انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ 'بھارتی حکومت نے یہ بھی یقینی بنایا ہےکہ دونوں طرف سے جاری لاک ڈاون کے باوجود نیپال کو تجارت اور ضروری اشیا کی سپلائی میں کوئی ناخوشگوار مداخلت نہ ہو۔