عالمی شہرت یافتہ عالم دین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ آن لائن خصوصی بات چیت کی۔
وائرس کے بریک آوٹ میں تبلیغی جماعت کا نام گھسیٹنے اور انہیں ولن بنا کر پیش کرنے سمیت وزیراعظم نریندر مودی کے ذریعہ کورونا مخالف کوششوں، ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور کچھ مسلمانوں کے ذریعہ ڈاکٹرز اورپولیس پرحملوں کے بارے میں مولانا نعمانی نے بات چیت کی۔
میڈیاکے خلاف قانونی کاروائی کیوں؟
میں توبہت ہی مثبت فکرکاحامل انسان ہوں،اگرایک دولوگوں سے غلطی ہوتی تومیں اسے انسانی غلطی مان لیتا،مگر22/23 چینلوں نے یہی غلطی دہرائی۔میری جانب سے اعتراض کے باوجودبھی کچھ چینلوں نے غلطیاں دہرائیں۔ایک ٹی وی چینل نے کمال ہی کردیا،اس نے میری تصویربھی دکھائی اورمولاناسعدکی بھی تصویردکھائی،جس میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ایساہی لگتاہے کہ جومیڈیاکارویہ ہے،وہ ہماری شبیہ خراب کرنے کی عمداکوشش ہے،اسی لئے میں نے قانونی کاروائی کی۔
مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنا آسان ہے:
اس کی شروعات اسی وقت ہوگئی تھی جب کسی نے کہاتھاکہ لوگ کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں۔یہ وہیں سے چل پڑا۔اب اس کے بعدظاہرہے کہ ایک خاص پہچان کے لوگ نشانہ بنائے گئے۔اتنی افسوسناک بات ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ ہماراملک ایک بھیانک بیماری اوروباسے جوجھ رہاہے۔ایسے وقت میں توبھارت کے تمام شہریوں کومتحدہوکراس وباکے خلاف لڑناچاہئے۔ایسے موقع پرصرف سیاسی مفادکے لئے پورے معاملہ کوکسی رخ کی طرف موڑ دینابہت ہی افسوسناک ہے۔جولوگ بی جے پی سے اختلاف رکھتے ہیں اورجمہوریت میں سب کواختلاف کاحق ہے۔اب ہماراملک ایک بحران میں ہے،ایسی حرکتیں کرناشرمناک ہے۔
بدترین حالات کے لئے ذمہ دارکون ہے؟
بدترین حالات کے لئے بڑی حدتک میڈیاذمہ دارہے،جس نے فیک نیوز کوشائع کیا اور ایساہنگامہ برپا کیا جس کی وجہ سے ایک خاص طبقہ کوسہنا پڑا۔اگر ایسے فیک نیوزکے خلاف مہاراشٹر کی حکومت کی طرح مرکزی حکومت بھی کارروائی کرتی توشایداس طرح کاماحول پیدانہیں ہوتا۔
تبلیغی جماعت کوبدنام کرنے کے پس پردہ:
اگرتھوڑاپیچھے جائیں توہم دیکھیں گے کہ جب شہریت قانون کے خلاف مظاہرے ہورہے تھے،تواس وقت ملک کاسیکولراورجمہوری طبقہ ایک ساتھ کھڑے ہوکرپوری طاقت سے لڑ رہاتھا،جس کے بعدحکومت بیک فٹ پرنظرآئی۔مگربدقسمتی سے یہ وباآگئی۔اب اس بیماری کافائدہ اٹھاکر(مجھے افسوس کے ساتھ کہناپڑرہاہے)اچانک اس پورے ملک میں نفرت کے زہرگھولنے کے لئے اس بیماری کااستعمال کیاجانے لگااوراس کے لئے میڈیاکااستعمال کیاگیا۔اب اسی نفرت کااثرملک میں دکھ رہا۔اس کارخ مسلمانوں کی طرف موڑ دیاگیا۔سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے ملک کوسول وارکی طرف دکھیلاجانے لگا۔
مودی حکومت قابل ستائش مگر:
حکومت کی تمام کوششوں کی سراہناکرتے ہیں۔غریبوں،بے روزگاروں اورکسانوں تک راشن پہنچانے کے لئے جوکوششیں ہورہی ہیں،وہ قابل تعریف ہے۔جب وزیراعظم نے لاک ڈاؤن کااعلان کیاتھاتومیں سب سے پہلاشخص تھاجس نے اس کااستقبال کیاتھا۔اس دوران علماء کے دوران جوگفتگوہورہی تھی،اس میں میں بھی شامل تھا۔جس میں یہ طے ہواکہ ہمیں اس بات کے اعلان میں دیرنہیں کرناچاہئے کہ مسجدوں میں عام معمول کے مطابق باجماعت نہ ہو۔علماء کے دوران جواتفاق رائے ہوا،وہ بہت ہی شاندارتھا،اس کی مثال نہیں ملتی۔ان کوششوں کوسراہناچاہئے،لیکن جہاں خامیاں ہیں اس کی بھی نشاندہی ہونی چاہئے۔
بھکمری بڑاخطرہ ہوسکتا ہے:
کوروناوباکے اس عہدمیں ہمیں جوسب سے بڑاخطرہ نظرآرہاہے،وہ بھکمری ہے،اس سے نپٹنے کے لئے ہمیں ابھی سے اپنی کمرکس لینی چاہئے۔اس کے علاوہ حکومت کوکوروناکی جانچ کے عمل میں تیزی لاناچاہئے اورجانچ کی تعدادمیں اضافہ کے لئے بڑے پیمانے پرٹیسٹنگ ہونی چاہئے۔
ڈاکٹروں پرمسلمانوں کے حملہ پرکیاکہا؟
کسی چیزکومیڈیاہائی لائٹ کردیتاہے اورکسی کودبادیتاہے۔کیاصرف مسلمان صرف ایسی حرکتیں کررہے ہیں،کیاہندونہیں کررہے؟مسئلہ مسلمان اورہندوہونے کانہیں،مسئلہ جہالت کاہے۔مسئلہ بیداری کی کمی کاہے۔کئی جگہ پرغیرمسلموں نے بھی ڈاکٹروں پرحملہ کیاہے۔ایسے لوگ بھی ہیں۔دوسری طرف ایسے مسلمان بھی ہیں جوہندووں کی ارتھیاں اٹھارہے ہیں۔ہرسماج کے لوگوں سے غلطیاں ہورہی ہیں۔اورہرسماج میں اچھے اچھے لوگ ہیں۔اگرمیڈیاایمانداری کے ساتھ رپورٹنگ کرتاتوملک کاماحول نہیں بگڑتا۔ہم انسانیت اورملک کے خلاف کسی بھی اقدام کادفاع نہیں کریں گے۔وہ اقدام کوئی مسلمان کرے،مولاناکرے،ہندوکرے،پنڈت کرے،ہم دفاع نہیں کریں گے بلکہ ایسے لوگوں پرکاروائی ہونی چاہئے۔