کشمیر میں ایوان صحافت کے صحن میں جمع ہوکر مقامی، ملکی و غیر ملکی صحافتی اداروں سے منسلک نامہ نگاروں نے کشمیر میں جاری مواصلاتی پابندی کے خلاف خاموش احتجاج کیا۔
دفعہ 370کی منسوخی اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام خطوں میں تقسیم کرنے کے بعد جہاں وادی کشمیر میں سخت ترین بندشیں عائد کی گئیں وہیں مواصلاتی نظام بشمول انٹرنیٹ کو بھی معطل کیا گیا جس سے وادی کے سبھی شعبہ ہائے فکر سے وابستہ افراد خصوصا صحافیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
گرچہ صحافیوں کی سہولیت کے لیے اگست کے وسط میں سرینگر کے ایک نجی ہوٹل میں 'میڈیا فیسلٹیشن سنٹر (Media Facilitation Centre) 'قائم کیا گیا جہاں چند کمپیوٹر پر انٹرنیٹ کی سہولیات کے علاوہ ایک موبائل فون بھی مہیا رکھا گیا۔
بعد ازاں اس فیسلٹیشن سنٹر کو جموں و کشمیر کے محکمہ اطلاعات کے دفتر میں منتقل کیا گیا جو وہاں ہنوز جاری ہے، تاہم احتجاجی صحافیوں کے مطابق میڈیا فیسلٹیشن سنٹر صحافیوں کے لیے ایک مذاق ہے۔
احتجاج کے تعلق سے سینئر صحافی پرویز بخاری نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ سرکار سے بھیکیا مفت میں انٹرنیٹ خدمات نہیں مانگ رہے، انکا کہنا تھا کہ جہاں پورے عالم میں انٹرنیٹ کو بنیادی ضروریات میں شامل کیا جا رہا ہے وہیں کشمیر میں صحافیوں سمیت پوری آبادی کو انٹرنیٹ سے محروم رکھا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 100دن سے جاری مواصلاتی پابندی کی وجہ سے صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس سے کشمیر کی صحیح تصویر پورے عالم تک نہیں پہنچ پاتی۔
میڈیا فیسلٹیشن سینٹر کو صحافیوں کی حمیت و غیرت کے خلاف اور اسے ’بے عزتی‘ قرار دیتے ہوئے پرویز بخاری کا کہنا تھا کہ میڈیا سینٹر میں سینکڑوں صحافی قطار میں اپنی باری کا انتظار کرکے محض 15منٹ تک ہی انٹرنیٹ استعمال کر پاتے ہیں۔