ETV Bharat / bharat

'بی جے پی کا ایجنڈا پوشیدہ نہیں ہے' - سوراج انڈیا کے صدر یوگیندر یادو

سینیئر صحافی امت اگنی ہوتری نے یوگیندر یادو کے ساتھ قومی آبادی رجسٹر اور قومی شہریت رجسٹر سے متعلق بات چیت کی ہے۔پیش ہیں چند اہم اقتباسات۔

بی جے پی کا ایجنڈا پوشیدہ نہیں ہے: یوگیندر یادو
بی جے پی کا ایجنڈا پوشیدہ نہیں ہے: یوگیندر یادو
author img

By

Published : Feb 29, 2020, 2:35 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 11:09 PM IST

امت اگنی ہوتری : 'وی دی پیپل آف انڈیا' نامی جس گروپ سے آپ وابستہ ہیں، اُس نےمجوزہ قومی آبادی رجسٹر(این پی آر) کا بائیکاٹ کرنے کی کال دی ہے ۔ جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایک معمول کا انتظامی معاملہ ہے۔ آپ اس ضمن میں کیا کہنا چاہیں گے؟

بی جے پی کا ایجنڈا پوشیدہ نہیں ہے: یوگیندر یادو

یوگیندر یادو : ہم نے قومی آبادی رجسٹر کے بائیکاٹ کی کال اس لئے دی ہے کیونکہ اس کے ذریعے قومی شہریت رجسٹر(این سی آر) کے لئے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ یعنی قومی آبادی رجسٹر مرتب کرنے کے بعد حکومت قومی شہریت رجسٹر مرتب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اگر حکومت محض شہریوں کی فہرست مرتب کرنا چاہتی تو اس کے لئے پہلے ہی ہمارے پاس ووٹر لسٹ موجود ہے۔ سب سےا ہم یہ کہ ہمارے پاس آدھار کارڈ اور راشن کارڈ موجود ہیں۔یعنی ووٹر لسٹوں اور راشن کارڈز کی وجہ سے ہمارے پاس آبادی کے اعداد و شمار پہلے سے ہی ہیں۔حکومت ووٹر لسٹ کو ہی این آر سی تسلیم کیوں نہیں کرتی ہے؟ اگر ووٹر لسٹ میں کسی کا نام شامل نہیں بھی ہوگا، تو اسے پانچ یا چھ ماہ کے اندراندر درخواست دائر کرنے کا موقع دیا جاسکتا ہے۔اوراگر حکومت کو لگتا ہے کہ ووٹر لسٹ میں کوئی غلط اندارج ہوا ہے تو اس ضمن میں حکومت اپنا اعتراض پیش کرسکتی ہے۔ لیکن حکومت پہلے سے ہی موجود ان فہرستوں کے بجائے نئے سرے سے آبادی کی فہرست مرتب کرنا چاہتی ہے۔ کیا ایسا کرنا ضروری ہے؟ اور کیا اگر یہ فہرست دستاویزات کی بنیاد پر مرتب کی جارہی ہے یعنی جس کے پاس دستاویزات ہونگے صرف اسی کا اندراج ہوگا تو کیایہ ایک امتیازی عمل نہیں ہوگا؟اس ضمن میں آسام کی مثال سامنے ہے۔جہاں قومی شہریت رجسٹر مرتب کی گئی ۔ہمیں یقین ہے کہ قومی آبادی رجسٹر اور نیشنل رجسٹر فار سٹیزنز ہمارے سماج میں اسی پیمانے کی تباہی مچائے گی، جس پیمانے کی تباہی نوٹ بندی کی وجہ سے ہماری معیشت میں مچ گئی ہے۔

امت اگنی ہوتری : آپ بار بار ایسا کیوں کہتے ہیں کہ نیشنل سٹیزنز رجسٹر مرتب کرنے کے پس پردہ حکمران بی جے پی کا ایک پوشیدہ ایجنڈا ہے؟

یوگیندر یادو : حقیقت میں بی جے پی کا ایجنڈا پوشیدہ نہیں ہے۔ آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کو مرتب کرنے کے عمل کی نگرانیسپریم کورٹ ن کررہا تھا، لیکن اس نے بی جے پی کے لئے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں کئے ۔انہیں لگا تھا کہ اس عمل کے ذریعے مسلم مہاجرین کو نکال باہر کیا جائے گا اور ہندؤں کو بچایا جائے گا۔ لیکن ایسا اس لئے نہیں ہوسکا کیونکہ اس عمل کی نگرانی سپریم کورٹ کررہا تھا۔اس عمل میں آسام میں انیس لاکھ غیر ملکیوں کی نشاندہی کی گئی لیکن ان میں اکثریت ہندؤں کی تھی ۔ چونکہ آسام میں بی جے پی کا ووٹ بینک بنگالی ہندؤں پر مشتمل ہے، اس لئے بی جے پی نے یہاں قومی رجسٹر آف سٹیزنز منسوخ کردی۔ لیکن اس وقت جس مجوزہ عمل کی بات ہورہی ہے اس کی نگرانی سپریم کورٹ نہیں کررہا ہے۔اس لئے یہ سب کچھ اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔حکومت کے پاس پہلے ہی شہریت ترمیمی ایکٹ ہے۔بی جے پی یہ سب کچھ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں مزید ووٹ حاصل کرنے کے لئے کررہی ہے۔

امت اگنی ہوتری : تو اس سارے عمل میں تلوار کس کے سر پر لٹک رہی ہے؟

یوگیندر یادو : قومی رجسٹر آف سٹیزنز کی وجہ سے ملک میں ہر تیسرا شخص متاثر ہوگا۔اس کا اثر ہر قبائیلی، دلت اور غریب انسان پر پڑے گا، جن کے پاس شہریت کے دستاویزات نہیں ہیں۔ ان سب پر اس عمل کی تلوار لٹکتی رہے گی۔

امت اگنی ہوتری : اگر لوگ قومی آبادی رجسٹرمیں اپنا اندارج کرانے کے عمل کا بائیکاٹ کریں گے تو اس کے نتیجے میں انہیں کس طرح کےنقصانات کا خطرہ ہوسکتا ہے ؟

یوگیندر یادو : ہم نے سیول نافرمانی کی کال دی ہے۔ اس عمل کو انجام دینے والے افسران کے ساتھ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہم لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس عمل کے دوران سرکاری افسران کی عزت کریں اور انہیں چائے بھی پلائیں لیکن ان کےسوالوں کو جواب نہ دیں۔قانونی طور پر ایسا کرنے کی صورت میں فی کنبے کو ایک ہزار روپیہ کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔لیکن اس کے نتیجے میں حکومت ان کنبوں کو فلاحی اسکیموں سے لاتعلق نہیں کرسکتی ہے، جیسا کہ اس پروپگنڈا کیا جارہا ہے ۔اس وقت یہ جھوٹ پھیلایا جارہا ہے کہ جو لوگ نیشنل پاپولیشن رجسٹر میں اپنا اندار ج نہیں کرائیں گے انہیں سرکاری اسکیموں کے فوائد حاصل نہیں ہونگے۔لیکن ایسا نہیں ہے ۔ نیشنل پاپولیشن رجسٹر کی فہرست میں جو لوگ شامل نہیں ہونگے، انہیں حکومتی اسکیموں کے فوائد سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔نیشنل پاپولیشن رجسٹر مرتب کرنے کا اصل مقصد نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز مرتب کرنا ہے۔

امت اگنی ہوتری : انتخابات کے حوالے سے آپ کا منصوبہ کیا ہے ؟

یوگیندر یادو:ہم نے عوام میں جانکاری پیدا کرنے کے لئے ایک ماہ کی جانکاری مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ مہم 22فروری کو مولانا عبدالکلام آزاد کے یوم وصال سے 23مارچ یعنی بھگت سنگھ کے یوم شہادت تک جاری رہے گی۔اس مہم میں سو مختلف تنظیمیں شامل ہونگیں۔یہ مہم وی دی پیپل( ہم بھارت کے لوگ )بینر کے تحت چلائی جائے گی۔اس مہم کے دوران ہم لوگوں کو قومی آبادی رجسٹر کے بارے میں جانکاری دیں گے۔ ہم اس مہم کے دوران سوشل میڈیا کا بھی استعمال کریں گے۔ اس مہم کےدوران اس معاملےمیں ہم عوام میں اپنا پیغام پھیلایا جائے گا۔

امت اگنی ہوتری : ایسا لگتا ہے کہ آپ کا چہرہ مزاحمت کی علامت بن گیا ہے۔ خواہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی یا جامع ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں تشدد کا معاملہ ہو یا نیشنل پاپولیشن رجسٹر آپ چھائے ہوئے ہیں؟

یوگیندر یادو : نہیں میں اس مزاحمت کا چہرہ نہیں ہوں۔ حقیقت میں یہ مزاحمتی تحریک ہمارے ملک کی خواتین کی ہے۔ان خواتین میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیوسٹی کی وہ دو خواتین بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنے دوستوں کو پولیس کی جارحیت سے بچالیا تھا۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی آسیہ گوش اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف شاہین باغ میں بیٹھی خواتین ہی اس مزاحمت کی علامت ہیں۔اسلئے یہ اچھی بات ہے کہ سفید دھاڑی والے لوگ نہیں، بلکہ اس ملک کی خواتین یہ تحریک چلارہی ہیں۔

امت اگنی ہوتری : 'وی دی پیپل آف انڈیا' نامی جس گروپ سے آپ وابستہ ہیں، اُس نےمجوزہ قومی آبادی رجسٹر(این پی آر) کا بائیکاٹ کرنے کی کال دی ہے ۔ جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایک معمول کا انتظامی معاملہ ہے۔ آپ اس ضمن میں کیا کہنا چاہیں گے؟

بی جے پی کا ایجنڈا پوشیدہ نہیں ہے: یوگیندر یادو

یوگیندر یادو : ہم نے قومی آبادی رجسٹر کے بائیکاٹ کی کال اس لئے دی ہے کیونکہ اس کے ذریعے قومی شہریت رجسٹر(این سی آر) کے لئے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ یعنی قومی آبادی رجسٹر مرتب کرنے کے بعد حکومت قومی شہریت رجسٹر مرتب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اگر حکومت محض شہریوں کی فہرست مرتب کرنا چاہتی تو اس کے لئے پہلے ہی ہمارے پاس ووٹر لسٹ موجود ہے۔ سب سےا ہم یہ کہ ہمارے پاس آدھار کارڈ اور راشن کارڈ موجود ہیں۔یعنی ووٹر لسٹوں اور راشن کارڈز کی وجہ سے ہمارے پاس آبادی کے اعداد و شمار پہلے سے ہی ہیں۔حکومت ووٹر لسٹ کو ہی این آر سی تسلیم کیوں نہیں کرتی ہے؟ اگر ووٹر لسٹ میں کسی کا نام شامل نہیں بھی ہوگا، تو اسے پانچ یا چھ ماہ کے اندراندر درخواست دائر کرنے کا موقع دیا جاسکتا ہے۔اوراگر حکومت کو لگتا ہے کہ ووٹر لسٹ میں کوئی غلط اندارج ہوا ہے تو اس ضمن میں حکومت اپنا اعتراض پیش کرسکتی ہے۔ لیکن حکومت پہلے سے ہی موجود ان فہرستوں کے بجائے نئے سرے سے آبادی کی فہرست مرتب کرنا چاہتی ہے۔ کیا ایسا کرنا ضروری ہے؟ اور کیا اگر یہ فہرست دستاویزات کی بنیاد پر مرتب کی جارہی ہے یعنی جس کے پاس دستاویزات ہونگے صرف اسی کا اندراج ہوگا تو کیایہ ایک امتیازی عمل نہیں ہوگا؟اس ضمن میں آسام کی مثال سامنے ہے۔جہاں قومی شہریت رجسٹر مرتب کی گئی ۔ہمیں یقین ہے کہ قومی آبادی رجسٹر اور نیشنل رجسٹر فار سٹیزنز ہمارے سماج میں اسی پیمانے کی تباہی مچائے گی، جس پیمانے کی تباہی نوٹ بندی کی وجہ سے ہماری معیشت میں مچ گئی ہے۔

امت اگنی ہوتری : آپ بار بار ایسا کیوں کہتے ہیں کہ نیشنل سٹیزنز رجسٹر مرتب کرنے کے پس پردہ حکمران بی جے پی کا ایک پوشیدہ ایجنڈا ہے؟

یوگیندر یادو : حقیقت میں بی جے پی کا ایجنڈا پوشیدہ نہیں ہے۔ آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کو مرتب کرنے کے عمل کی نگرانیسپریم کورٹ ن کررہا تھا، لیکن اس نے بی جے پی کے لئے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں کئے ۔انہیں لگا تھا کہ اس عمل کے ذریعے مسلم مہاجرین کو نکال باہر کیا جائے گا اور ہندؤں کو بچایا جائے گا۔ لیکن ایسا اس لئے نہیں ہوسکا کیونکہ اس عمل کی نگرانی سپریم کورٹ کررہا تھا۔اس عمل میں آسام میں انیس لاکھ غیر ملکیوں کی نشاندہی کی گئی لیکن ان میں اکثریت ہندؤں کی تھی ۔ چونکہ آسام میں بی جے پی کا ووٹ بینک بنگالی ہندؤں پر مشتمل ہے، اس لئے بی جے پی نے یہاں قومی رجسٹر آف سٹیزنز منسوخ کردی۔ لیکن اس وقت جس مجوزہ عمل کی بات ہورہی ہے اس کی نگرانی سپریم کورٹ نہیں کررہا ہے۔اس لئے یہ سب کچھ اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔حکومت کے پاس پہلے ہی شہریت ترمیمی ایکٹ ہے۔بی جے پی یہ سب کچھ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں مزید ووٹ حاصل کرنے کے لئے کررہی ہے۔

امت اگنی ہوتری : تو اس سارے عمل میں تلوار کس کے سر پر لٹک رہی ہے؟

یوگیندر یادو : قومی رجسٹر آف سٹیزنز کی وجہ سے ملک میں ہر تیسرا شخص متاثر ہوگا۔اس کا اثر ہر قبائیلی، دلت اور غریب انسان پر پڑے گا، جن کے پاس شہریت کے دستاویزات نہیں ہیں۔ ان سب پر اس عمل کی تلوار لٹکتی رہے گی۔

امت اگنی ہوتری : اگر لوگ قومی آبادی رجسٹرمیں اپنا اندارج کرانے کے عمل کا بائیکاٹ کریں گے تو اس کے نتیجے میں انہیں کس طرح کےنقصانات کا خطرہ ہوسکتا ہے ؟

یوگیندر یادو : ہم نے سیول نافرمانی کی کال دی ہے۔ اس عمل کو انجام دینے والے افسران کے ساتھ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہم لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس عمل کے دوران سرکاری افسران کی عزت کریں اور انہیں چائے بھی پلائیں لیکن ان کےسوالوں کو جواب نہ دیں۔قانونی طور پر ایسا کرنے کی صورت میں فی کنبے کو ایک ہزار روپیہ کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔لیکن اس کے نتیجے میں حکومت ان کنبوں کو فلاحی اسکیموں سے لاتعلق نہیں کرسکتی ہے، جیسا کہ اس پروپگنڈا کیا جارہا ہے ۔اس وقت یہ جھوٹ پھیلایا جارہا ہے کہ جو لوگ نیشنل پاپولیشن رجسٹر میں اپنا اندار ج نہیں کرائیں گے انہیں سرکاری اسکیموں کے فوائد حاصل نہیں ہونگے۔لیکن ایسا نہیں ہے ۔ نیشنل پاپولیشن رجسٹر کی فہرست میں جو لوگ شامل نہیں ہونگے، انہیں حکومتی اسکیموں کے فوائد سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔نیشنل پاپولیشن رجسٹر مرتب کرنے کا اصل مقصد نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز مرتب کرنا ہے۔

امت اگنی ہوتری : انتخابات کے حوالے سے آپ کا منصوبہ کیا ہے ؟

یوگیندر یادو:ہم نے عوام میں جانکاری پیدا کرنے کے لئے ایک ماہ کی جانکاری مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ مہم 22فروری کو مولانا عبدالکلام آزاد کے یوم وصال سے 23مارچ یعنی بھگت سنگھ کے یوم شہادت تک جاری رہے گی۔اس مہم میں سو مختلف تنظیمیں شامل ہونگیں۔یہ مہم وی دی پیپل( ہم بھارت کے لوگ )بینر کے تحت چلائی جائے گی۔اس مہم کے دوران ہم لوگوں کو قومی آبادی رجسٹر کے بارے میں جانکاری دیں گے۔ ہم اس مہم کے دوران سوشل میڈیا کا بھی استعمال کریں گے۔ اس مہم کےدوران اس معاملےمیں ہم عوام میں اپنا پیغام پھیلایا جائے گا۔

امت اگنی ہوتری : ایسا لگتا ہے کہ آپ کا چہرہ مزاحمت کی علامت بن گیا ہے۔ خواہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی یا جامع ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں تشدد کا معاملہ ہو یا نیشنل پاپولیشن رجسٹر آپ چھائے ہوئے ہیں؟

یوگیندر یادو : نہیں میں اس مزاحمت کا چہرہ نہیں ہوں۔ حقیقت میں یہ مزاحمتی تحریک ہمارے ملک کی خواتین کی ہے۔ان خواتین میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیوسٹی کی وہ دو خواتین بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنے دوستوں کو پولیس کی جارحیت سے بچالیا تھا۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی آسیہ گوش اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف شاہین باغ میں بیٹھی خواتین ہی اس مزاحمت کی علامت ہیں۔اسلئے یہ اچھی بات ہے کہ سفید دھاڑی والے لوگ نہیں، بلکہ اس ملک کی خواتین یہ تحریک چلارہی ہیں۔

Last Updated : Mar 2, 2020, 11:09 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.