ETV Bharat / bharat

انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر کا ایودھیا فیصلے پر ردعمل - قومی مجلس مشاورت کمیٹی کے بانی اور انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر محمد سلیمان نے بابری مسجد پر آئے فیصلے

قومی مجلس مشاورت کمیٹی کے بانی اور انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر محمد سلیمان نے بابری مسجد پر آئے فیصلے پر اپنی غیر اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم دستور ہند میں دیے گئے حقوق کے مطابق آخری حد تک بابری مسجد کی لڑائی لڑیں گے۔

انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر محمد سلیمان کا اظہارخیال
author img

By

Published : Nov 13, 2019, 10:00 AM IST

قومی مجلس مشاورت کمیٹی کے بانی اور انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر محمد سلیمان نے سپریم کورٹ میں دوبارہ نظر ثانی کی درخواست سے متعلق اتفاق رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔

قومی سلامتی کے مشیر کار اجیت ڈوبھال کے گھر پر مسلم رہنماؤں کی ہوئی میٹنگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتظامی طور پر تصفیہ کے بحران ( کرائسس سیٹلمینٹ) کا اظہار ہے۔

انڈین یونین لیگ کے قومی صدر اور قومی مجلس مشاورت کمیٹی کے بانی محمد سلیمان کا کہنا ہے کہ 'جب بابری مسجد کا فیصلہ آنے والا تھا تب ہی اس بات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ ایک طبقے کو قابو میں رکھنا ہے، اور اس بات پر رائے ہموار کی جارہی تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا سب لوگ احترام کریں گے اور اسے مانیں گے ، لیکن جب فیصلہ آیا تو وہ غیر اطمینان بخش تھا، جس میں انصاف نہیں ہوا ہے اس فیصلے سے پورے ملک میں بے چینی ہے'۔

ویڈیو : انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر محمد سلیمان کا اظہارخیال

انھوں نے کہا کہ ' مسلمانوں نے پھر بھی سپریم کورٹ کا احترام کیا ہے، اس فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے قومی سلامتی کے مشیر کار اجیت ڈوبھال کو آگے کیا اور مسلم قائدین اور رہنماؤں کی ایک میٹنگ رکھ کر اسں طرح کرائسس سیٹلمنٹ کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں بھی بڑی تعداد میں مسلم قائدین اور رہنماؤں نے غیر اطمینانی کا اظہار کیا ہے ،اس میٹنگ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے لوگوں کو نہیں بلایا گیا تھا، اس میٹنگ میں گفتگو تو بہت ہوئی اور کئی پہلو پر اجیت ڈوبھال کی مثبت رائے بھی نظر آ رہی تھی لیکن اخباروں میں جو کچھ چھپا ہے وہ پہلے سے ایک سیٹ ڈرافٹ تھا جو میٹنگ میں ہوئی گفتگو سے جدا تھا، ایسا لگتا ہے کہ یہ مسلم قائدین اور رہنماؤں کو عوام میں غیر معتبر اور مشکوک بنانے والا عمل تھا، جو بڑا تکلیف دہ تھا، یہ مزید زخم پر نمک لگانے والا عمل تھا، اس میٹنگ کے خلاف مسلمانوں کا ردعمل آنا شروع ہو گیا ہے'۔

وہی محمد سلیمان نے کہا کہ 'سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ہمارے موقف کو مانا ہے، مسجد کے وجود کو بھی مانا ہے۔ مسجد کی تعمیر کو مانا ہے، مسجد میں رکھی گئی مورتی کو مجرمانہ فعل کرار دیا ہے، مسجد کو گرائے جانے کو بھی مجرمانہ فعل قرار دیا ہے، رام لالہ کے وجود کے دعوی کو بھی خارج کیا ہے، اور اے ایس آئی کی رپورٹ کو بھی یہ کہتے ہوئے خارج کیا ہے کہ یہ کہیں سے ثابت نہیں ہوتا ہے کہ مندر گرا کر مسجد بنائی گئ ہے۔ تمام چیزوں کو تسلیم کرنے کے بعد بھی عدالت نے اس جگہ کو دفعہ 142 کے تحت ہندوؤں کو ایوارڈ کردی'۔

اس جگہ کو مندر کی تعمیر کے لیے دے دیا جانا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ نے جو دفعہ 142 کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کیا ہے وہ بھارت کے سماجی و جمہوری (سوشل ڈیموکریٹک) نظام کے لیے ٹھیک نہیں ہے'۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد فیصلے پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کا لائحہ عمل

محمد سلیمان نے یہ بھی بتایا کہ 17 نومبر کو مسلم پرسنل لأ بورڈ کی میٹنگ ہونے جارہی ہے اس میں یہ فیصلہ ہوگا کہ ہم سپریم کوٹ میں نظر ثانی کے لیے اپیل ( ریویو پیٹیشن) داخل کریں یا نہ کرین'۔

محمد سلیمان نے مزید کہا کہ 'اس ملک میں دستور کے مطابق جو بھی ہمیں اختیارات دیئے گئے ہیں ہم اس کا آخری حد تک استعمال کریں گے۔ حالیہ فیصلے پر سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل کریں گے۔وہیں عوام کی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بڑی اچھی بات ہے کہ اس فیصلے سے مسلمان خود کو شکست خردہ نہیں محسوس کرتے بلکہ ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں'۔

قومی مجلس مشاورت کمیٹی کے بانی اور انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر محمد سلیمان نے سپریم کورٹ میں دوبارہ نظر ثانی کی درخواست سے متعلق اتفاق رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔

قومی سلامتی کے مشیر کار اجیت ڈوبھال کے گھر پر مسلم رہنماؤں کی ہوئی میٹنگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتظامی طور پر تصفیہ کے بحران ( کرائسس سیٹلمینٹ) کا اظہار ہے۔

انڈین یونین لیگ کے قومی صدر اور قومی مجلس مشاورت کمیٹی کے بانی محمد سلیمان کا کہنا ہے کہ 'جب بابری مسجد کا فیصلہ آنے والا تھا تب ہی اس بات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ ایک طبقے کو قابو میں رکھنا ہے، اور اس بات پر رائے ہموار کی جارہی تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا سب لوگ احترام کریں گے اور اسے مانیں گے ، لیکن جب فیصلہ آیا تو وہ غیر اطمینان بخش تھا، جس میں انصاف نہیں ہوا ہے اس فیصلے سے پورے ملک میں بے چینی ہے'۔

ویڈیو : انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر محمد سلیمان کا اظہارخیال

انھوں نے کہا کہ ' مسلمانوں نے پھر بھی سپریم کورٹ کا احترام کیا ہے، اس فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے قومی سلامتی کے مشیر کار اجیت ڈوبھال کو آگے کیا اور مسلم قائدین اور رہنماؤں کی ایک میٹنگ رکھ کر اسں طرح کرائسس سیٹلمنٹ کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں بھی بڑی تعداد میں مسلم قائدین اور رہنماؤں نے غیر اطمینانی کا اظہار کیا ہے ،اس میٹنگ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے لوگوں کو نہیں بلایا گیا تھا، اس میٹنگ میں گفتگو تو بہت ہوئی اور کئی پہلو پر اجیت ڈوبھال کی مثبت رائے بھی نظر آ رہی تھی لیکن اخباروں میں جو کچھ چھپا ہے وہ پہلے سے ایک سیٹ ڈرافٹ تھا جو میٹنگ میں ہوئی گفتگو سے جدا تھا، ایسا لگتا ہے کہ یہ مسلم قائدین اور رہنماؤں کو عوام میں غیر معتبر اور مشکوک بنانے والا عمل تھا، جو بڑا تکلیف دہ تھا، یہ مزید زخم پر نمک لگانے والا عمل تھا، اس میٹنگ کے خلاف مسلمانوں کا ردعمل آنا شروع ہو گیا ہے'۔

وہی محمد سلیمان نے کہا کہ 'سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ہمارے موقف کو مانا ہے، مسجد کے وجود کو بھی مانا ہے۔ مسجد کی تعمیر کو مانا ہے، مسجد میں رکھی گئی مورتی کو مجرمانہ فعل کرار دیا ہے، مسجد کو گرائے جانے کو بھی مجرمانہ فعل قرار دیا ہے، رام لالہ کے وجود کے دعوی کو بھی خارج کیا ہے، اور اے ایس آئی کی رپورٹ کو بھی یہ کہتے ہوئے خارج کیا ہے کہ یہ کہیں سے ثابت نہیں ہوتا ہے کہ مندر گرا کر مسجد بنائی گئ ہے۔ تمام چیزوں کو تسلیم کرنے کے بعد بھی عدالت نے اس جگہ کو دفعہ 142 کے تحت ہندوؤں کو ایوارڈ کردی'۔

اس جگہ کو مندر کی تعمیر کے لیے دے دیا جانا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ نے جو دفعہ 142 کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کیا ہے وہ بھارت کے سماجی و جمہوری (سوشل ڈیموکریٹک) نظام کے لیے ٹھیک نہیں ہے'۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد فیصلے پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کا لائحہ عمل

محمد سلیمان نے یہ بھی بتایا کہ 17 نومبر کو مسلم پرسنل لأ بورڈ کی میٹنگ ہونے جارہی ہے اس میں یہ فیصلہ ہوگا کہ ہم سپریم کوٹ میں نظر ثانی کے لیے اپیل ( ریویو پیٹیشن) داخل کریں یا نہ کرین'۔

محمد سلیمان نے مزید کہا کہ 'اس ملک میں دستور کے مطابق جو بھی ہمیں اختیارات دیئے گئے ہیں ہم اس کا آخری حد تک استعمال کریں گے۔ حالیہ فیصلے پر سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل کریں گے۔وہیں عوام کی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بڑی اچھی بات ہے کہ اس فیصلے سے مسلمان خود کو شکست خردہ نہیں محسوس کرتے بلکہ ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں'۔

Intro:قومی مجلس مشاورت کمیٹی کے بانی اور انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر محمد سلیمان صاحب نے بابری مسجد پر آئے فیصلے پر اپنی غیر اطمینانی کا اظہار کیا ہے ،اور کہا کہ ہم دستور ہند میں دیے گئے حق کے مطابق آخری حد تک بابری مسجد کی لڑائی لڑیں گے۔ وہی سپریم کورٹ میں دوبارہ نظر ثانی کی درخواست اتفاق رائے سے ڈالنے کا اظہار بھی کیا ہے . ہندوستانی حفاظتی امور کے مشیر کار اجیت ڈوبھال کے گھر پر مسلم رہنماؤں کی ہوئی میٹنگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کی یہ کرائسس سیٹلمینٹ ہے۔


Body:انڈین یونین لیگ کے قومی صدر اور قومی مجلس مشاورت کمیٹی کے بانی محمد سلیمان صاحب کا کہنا ہے کہ جب بابری مسجد کا فیصلہ آنے والا تھا تب ہی اس بات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ ایک طبقے کو قابو میں رکھنا ہے ، اور اس بات پر رائے ہموار کی جارہی تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا سب لوگ احترام کریں گے اور اسے مانیں گے ، لیکن جب فیصلہ آیا تو وہ غیر اطمینان بخش تھا، جس میں انصاف نہیں ہوا ہے اس فیصلے سے پورے ملک میں بے چینی ہے۔ مسلمانوں نے پھر بھی سپریم کورٹ کا احترام کیا ہے ، اس فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے قومی حفاظتی مشیر کار اجیت ڈوبھال صاحب کو آگے کیا اور مسلم قائدین اور رہنماؤں کی ایک میٹنگ رکھ کر اسطرح کرائسس سیٹلمنٹ کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں پر بھی بڑی تعداد میں مسلم قائدین اور رہنماؤں نے غیر اطمینانی کا اظہار کیا ہے ،اس میٹنگ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے لوگوں کو نہیں بلایا گیا تھا، اس میٹنگ میں گفتگو تو بہت ہوئی اور کئی پہلو پر اجیت ڈوبھال صاحب کی مثبت رائے بھی نظر آ رہی تھی لیکن اخباروں میں جو کچھ چھپا ہے وہ پہلے سے ایک سیٹ ڈرافٹ تھا جو میٹنگ میں ہوئی گفتگو سے جدا تھا، ایسا لگتا ہے کہ مسلم قائدین اور رہنماؤں کو عوام میں غیر معتبر اور مشکوک بنانے والا عمل تھا، جو بڑا تکلیف دہ تھا، یہ مزید زخم پر نمک لگانے والا عمل تھا، اس میٹنگ کے خلاف مسلمانوں کا ردعمل آنا شروع ہو گیا ہے ۔ وہی محمد سلیمان صاحب نے کہا کہ عدالت عالیا نے اپنے فیصلے میں ہمارے موقف کو مانا ہے ، مسجد کے وجود کو بھی مانا ہے ، مسجد کی تعمیر کو مانا ہے، مسجد میں رکھی گئی مورتی کو مجرمانہ فعل کرار دیا ہے، مسجد کو گرائے جانے کو بھی مجرمانہ فعل قرار دیا ہے، رام لالہ کے وجود کے دعوی کو بھی خارج کیا ہے، اور اے ایس آئی کی رپورٹ کو بھی یہ کہتے ہوئے خارج کیا ہے کہ یہ کہیں سے ثابت نہیں ہوتا ہے کہ مندر گرا کر مسجد بنائی گئ ھے۔ یہ تمام چیزوں کو تسلیم کرنے کے بعد بھی عدالت نے اس جگہ کو کو دفع 142 کے تحت اس جگہ کو ہندوؤں کو ایوارڈ کردی جس کے لیے ہندوؤں نے مسجد میں زبردستی مجرمانہ فعل کرتے ہوئے مورتی رکھی اور غاصبانہ طریقے سے اس کو منہدم کیا، اور سارے غیر قانونی کام کیے ، اس کے باوجود اس جگہ کو مندر کی تعمیر کے لئے دے دیا جانا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ نے جو دفع 142 کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کیا ہے وہ ہندوستان کے سوشل ڈیموکریٹک نظام کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ لہذا اسے میریٹ پر لے جانا ہوگا ۔ محمد سلیمان صاحب نے یہ بھی بتایا کہ 17 تاریخ کو مسلم پرسنل اللہ کی بورڈ کی میٹنگ ہونے جارہی ہے اس میں یہ فیصلہ ہوگا کہ ہم سپریم کورٹ میں نظر ثانی کے لیے اپیل داخل کریں ۔
بائٹ /= محمد سلیمان ، صدر ، انڈین نیشنل لیگ ، و بانی قومی مسلم مجلس مشاورتی کمیٹی


Conclusion:محمد سلیمان صاحب نے کہا کہ ہم اس ملک میں دستور کے مطابق جو بھی ہمیں اختیارات دیئے گئے ہیں ہم اس کا آخری حد تک استعمال کریں گے اور اس پر سپریم کورٹ میں میں نظر شانی کی اپیل کریں گے ، وہی عوام کی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بڑی اچھی بات ہے کہ اس فیصلے سے مسلم ملت خود کو شکست خردہ نہیں محسوس کرتی بلکہ ناراضگی کا اظہار کرتی ہے۔

For All Latest Updates

TAGGED:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.