قومی مجلس مشاورت کمیٹی کے بانی اور انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر محمد سلیمان نے سپریم کورٹ میں دوبارہ نظر ثانی کی درخواست سے متعلق اتفاق رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔
قومی سلامتی کے مشیر کار اجیت ڈوبھال کے گھر پر مسلم رہنماؤں کی ہوئی میٹنگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتظامی طور پر تصفیہ کے بحران ( کرائسس سیٹلمینٹ) کا اظہار ہے۔
انڈین یونین لیگ کے قومی صدر اور قومی مجلس مشاورت کمیٹی کے بانی محمد سلیمان کا کہنا ہے کہ 'جب بابری مسجد کا فیصلہ آنے والا تھا تب ہی اس بات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ ایک طبقے کو قابو میں رکھنا ہے، اور اس بات پر رائے ہموار کی جارہی تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا سب لوگ احترام کریں گے اور اسے مانیں گے ، لیکن جب فیصلہ آیا تو وہ غیر اطمینان بخش تھا، جس میں انصاف نہیں ہوا ہے اس فیصلے سے پورے ملک میں بے چینی ہے'۔
انھوں نے کہا کہ ' مسلمانوں نے پھر بھی سپریم کورٹ کا احترام کیا ہے، اس فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے قومی سلامتی کے مشیر کار اجیت ڈوبھال کو آگے کیا اور مسلم قائدین اور رہنماؤں کی ایک میٹنگ رکھ کر اسں طرح کرائسس سیٹلمنٹ کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں بھی بڑی تعداد میں مسلم قائدین اور رہنماؤں نے غیر اطمینانی کا اظہار کیا ہے ،اس میٹنگ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے لوگوں کو نہیں بلایا گیا تھا، اس میٹنگ میں گفتگو تو بہت ہوئی اور کئی پہلو پر اجیت ڈوبھال کی مثبت رائے بھی نظر آ رہی تھی لیکن اخباروں میں جو کچھ چھپا ہے وہ پہلے سے ایک سیٹ ڈرافٹ تھا جو میٹنگ میں ہوئی گفتگو سے جدا تھا، ایسا لگتا ہے کہ یہ مسلم قائدین اور رہنماؤں کو عوام میں غیر معتبر اور مشکوک بنانے والا عمل تھا، جو بڑا تکلیف دہ تھا، یہ مزید زخم پر نمک لگانے والا عمل تھا، اس میٹنگ کے خلاف مسلمانوں کا ردعمل آنا شروع ہو گیا ہے'۔
وہی محمد سلیمان نے کہا کہ 'سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ہمارے موقف کو مانا ہے، مسجد کے وجود کو بھی مانا ہے۔ مسجد کی تعمیر کو مانا ہے، مسجد میں رکھی گئی مورتی کو مجرمانہ فعل کرار دیا ہے، مسجد کو گرائے جانے کو بھی مجرمانہ فعل قرار دیا ہے، رام لالہ کے وجود کے دعوی کو بھی خارج کیا ہے، اور اے ایس آئی کی رپورٹ کو بھی یہ کہتے ہوئے خارج کیا ہے کہ یہ کہیں سے ثابت نہیں ہوتا ہے کہ مندر گرا کر مسجد بنائی گئ ہے۔ تمام چیزوں کو تسلیم کرنے کے بعد بھی عدالت نے اس جگہ کو دفعہ 142 کے تحت ہندوؤں کو ایوارڈ کردی'۔
اس جگہ کو مندر کی تعمیر کے لیے دے دیا جانا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ نے جو دفعہ 142 کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کیا ہے وہ بھارت کے سماجی و جمہوری (سوشل ڈیموکریٹک) نظام کے لیے ٹھیک نہیں ہے'۔
مزید پڑھیں: بابری مسجد فیصلے پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کا لائحہ عمل
محمد سلیمان نے یہ بھی بتایا کہ 17 نومبر کو مسلم پرسنل لأ بورڈ کی میٹنگ ہونے جارہی ہے اس میں یہ فیصلہ ہوگا کہ ہم سپریم کوٹ میں نظر ثانی کے لیے اپیل ( ریویو پیٹیشن) داخل کریں یا نہ کرین'۔
محمد سلیمان نے مزید کہا کہ 'اس ملک میں دستور کے مطابق جو بھی ہمیں اختیارات دیئے گئے ہیں ہم اس کا آخری حد تک استعمال کریں گے۔ حالیہ فیصلے پر سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل کریں گے۔وہیں عوام کی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بڑی اچھی بات ہے کہ اس فیصلے سے مسلمان خود کو شکست خردہ نہیں محسوس کرتے بلکہ ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں'۔