رمضان المبارک کا پہلا عشرہ اختتام ہونے والا ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام عبادت گاہیں بند ہیں۔ لوگ اپنے گھروں میں عبادت کرنے میں مصروف ہیں۔ رمضان المبارک میں افطار اور سحری کے اوقات میں سب سے زیادہ رونقیں ہوتی ہیں، اس کے لیے خاص انتظام کیا جاتا ہے۔ آئیے جانتے ہیں رمضان المبارک میں افطار وسحری کی کیا فضیلت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِج (البقرة، 2: 187)
’’اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو‘‘
اَلأَحَادِیْثُ النَّبَوِیَّةُ
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُوْرِ بَرَکَةً. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔۔
دوسری حدیث میں ارشاد ہے عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوْا الْفِطْرَ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ اس وقت تک خیر پر رہیں گے جب تک افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ نَبِيَّ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم و َزَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ تَسَحَّرَا فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ سَحُوْرِهِمَا قَامَ نَبِيُّ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم إِلَی الصَّلَاة فَصَلَّی قُلْنَا لِأَنَسٍ: کَمْ کَانَ بَیْنَ فَرَاغِهِمَا مِنْ سَحُوْرِهِمَا وَدُخُوْلِهِمَا فِي الصَّلَاة. قَالَ قَدْرُ مَا یَقْرَأُ الرَّجُلُ خَمْسِیْنَ آیَةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْبَیْهَقِيُّ.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت زید بن ثابت نے سحری کھائی۔ جب دونوں اپنی سحری سے فارغ ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور نماز پڑھی۔ ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ان کے سحری سے فارغ ہونے اور نماز میں شامل ہونے میں کتنا وقفہ تھا؟ فرمایا کہ جتنی دیر میں کوئی آدمی پچاس آیتیں پڑھے۔‘‘
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا؛’’ سحری کرو، کیونکہ سحری کے کھانے میں برکت ہے ۔ حضرت عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق ہے سحری کا لقم ‘‘۔( یا سحری کا کھانا)
یاد رہے کہ اہل کتاب کا روزہ سحری کے بغیر ہوتا ہے اور مسلمانوں کا روزہ سحری کے ساتھ ہوتا ہے، یہی سحری مسلمانوں اور کافروں میں فرق پیدا کرتا ہے۔
کافروں کا تصور یہ ہے کہ روزہ خود کو تکلیف دینے کے لیے ہے جبکہ مسلمانوں کا تصور یہ ہے کہ روزہ حکم بجا لانے کی عادت ڈالنے کے لیے ہے ۔ ہم فرمانبرداری کے ذریعے اللہ کا تقرب چاہتے ہیں اور وہ خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے ایسی ایسی تکلیفیں اٹھاتے ہیں جن کے اٹھانے کا اللہ نے حکم نہیں دیا ہے ۔
سحری کھانے میں برکت سے مراد یہ ہے کہ اس سے آپ کو اللہ کے حکم کی بجا آوری میں سہولت ہوتی ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ فجر کے وقت سے روزہ شروع کرو اور غروب آفتاب کے وقت ختم کرو ۔ اب جس وقت سے روزہ شروع ہوتا ہے اس سے پہلے اگر آپ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اجازت سے فائدہ اٹھا کر کھا پی لیتے ہیں تو کھایا پیا دن بھر آپ کے کام آئے گا لیکن اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو اس سے لازماً آپ کو کمزوری لا حق ہو جائے گی۔
حضرت عرباض بن ساریہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رمضان المبارک کے مہینے میں حضور ؐ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ آؤ مبارک ناشتے کے لیے۔
حضور نبی اکرم ؐ کے اس ارشاد کے مطابق سحری فقط کھانا نہیں ہے بلکہ ایک مبارک ناشتہ ہے یہودی یہ سمجھتے تھے کہ اگر سحری کھا کر روزہ رکھا تو کیا رکھا، لیکن اسلامی شریعت میں اس تصور کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
حدیث مبارکہ کے مطابق ’’مومن کے لیے بہترین سحری کھجور ہے ‘‘
کھجور میں انسان کی تمام غذائی ضروریات پائی جاتی ہے۔ اگر انسان کو کوئی غذا نہ مل سکے لیکن کھجور حاصل ہو تو یہ اس کے لیے کافی غذا ہے۔ موجودہ تحقیق کے مطابق انسان کو اپنی توانائی بر قرار رکھنے کے لیے غذا کی جتنی کیلوریز درکار ہوتی ہیں وہ کھجور میں موجود ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں بھی جب فوج کو کسی صحرائی علاقے میں لمبے عرصے تک قیام کرنا پڑتا تھا تو وہاں غذا مہیا کرنے کے عام مواقع موجود نہیں ہوتے تھے تو کھجوروں کا کافی اسٹاک فوج کے لیے فراہم کر دیا جاتا تھا۔
اس طرح اگر کئی کئی ماہ تک کوئی غذا میسر نہ آئے تو محض کھجور پر انحصار کیا جاسکتا ہے ۔ کھجور کی اسی افادیت اور اعلیٰ غذائیت کی بنا پر رسول اللہ ؐ نے کھجور کو بہترین سحری قرار دیا ۔
سحری کے وقت میں گنجائش رکھی گئی ہے جس کا پتا ہمیں اس حدیث مبارکہ میں ملتا ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا’’ تم میں کوئی شخص جب اذان کی آواز سنے اور اس وقت برتن ابھی اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ برتن کو اپنے ہاتھ سے نہ رکھے جب تک کہ وہ اپنی حاجت پوری نہ کر لے۔ نبی کریم ؐ کے اس فرمان کے بارے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آپ ؐ کے زمانے میں سحری کے وقت نقارے اور سائرن نہیں بجتے تھے بلکہ لوگوں کو اذان کی آواز سن کر یہ معلوم ہو جاتا تھا کہ سحری کا وقت ختم ہو گیا ہے ۔ جس طرح سحری کھانا باعثِ حصولِ برکت و رحمت ہے۔ اسی طرح ماہ مبارک، ماہ مقدس رمضانِ کریم میں مومن کا روزہ افطار کرنا اور دوسروں کا روزہ افطار کروانا بھی غیر معمولی اجر و ثواب اور فضیلت کا حامل ہے ۔
ترمذی کی ایک حدیث مبارکہ کے مطابق’’ افطار میں جلدی کرنے والے اللہ کو محبوب ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ مجھے اپنے بندوں میں سب سے زیادہ پسند وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں‘‘ روزہ کھولنے کے صحیح وقت کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے کہ جب رات اس طرف آنی شروع ہو اور دن اس طرف پلٹنا شروع ہو اور سورج ڈوب جائے تو روزہ دار کے روزہ کھولنے کا وقت ہو گیا ‘‘(متفق علیہ )
افطار کے لیے افضل چیز کھجور ہے ۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ’’ جب تم میں سے کوئی شخص روزہ افطار کرے تو اسے چاہیے کہ کھجور سے افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہوتی ہے اگر کھجور نہ ملے تو اسے چاہیے کہ پانی سے افطار کرے کیونکہ وہ پاک ہے ۔( احمد ، ترمذی ، دائود، ابن ماجہ )
رسول بر حق حضرت محمد ؐ کا قاعدہ یہ تھا کہ آپ ؐ پہلے روزہ افطار کرتے تھے اور پھر نماز پڑھتے تھے ۔ افطار میں آپ کا دستور یہ تھا کہ آپ ؐ تازہ کھجور سے افطار کرتے تھے اگر کھجور نہ ملتی تو پھر چھوہاروں سے روزہ کھولتے تھے اور اگر کبھی اتفاق سے وہ بھی نہ ہوتے تو پانی کے ایک دو گھونٹ پی کر روزہ افطار فرماتے تھے ۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ؐ نے فرمایا کہ یہ دین نمایاں اور غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود و نصاریٰ افطار کرنے میں تاخیر کرتے ہیں ۔
روزہ افطار کروانے کا اجر و ثواب اور فضیلت اس قدر زیادہ ہے کہ حدیث مبارکہ کے الفاظ کے مطابق جہنم کی آگ سے نجات کا آسان ترین ذریعہ ہی اس عملِ خیر کو قرار دے دیا گیا ہے ۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں کہ : جس نے رمضان میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو یہ اس کے گناہوں کی بخشش اور اس کی گردن کو آگ سے چھڑانے کا ذریعہ ہو گا اور اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس روزہ دار کو روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی ہو ۔
صحابہ کرام ؓ نے نبی بر حق حضرت محمد ؐ سے عرض کیا کہ ہم میں سے کوئی بھی اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ کسی دوسرے کو روزہ افطار کرا سکے ۔ آپ ؐ نے فرمایا افطار کرا دینے سے مراد پیٹ بھر کر کھلا دینا نہیں بلکہ ایک کھجور ، ایک دودھ یا لسی کے ایک گلاس سے روزہ افطار کرا دینا بھی ویسے ہی اجر و ثواب کا حامل عمل ہے جیسے پیٹ بھر کر کھلا دینے کا ثواب ہے ۔
ایک شخص نے حضور نبی کریم ؐ سے پوچھا ہم اپنا مال خرچ کرتے ہیں اس لیے کہ ہمارا نام بلند ہو کیا اس پر ہمیں کوئی اجر ملے گا؟ حضور ؐ نے فرمایا’’ نہیں‘‘
اس نے پوچھا اگر اللہ کے اجر اور دنیا کی ناموری دونوں کی نیت ہو؟ آپ ؐ نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ کوئی بھی عمل قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ خالصتاً اسی کے لیے نہ ہو ۔‘‘
لہٰذا رمضان المبارک میں صدقہ، خیرات اور روزہ افطار کروانے جیسے افضل اعمال خالصتاً اللہ کے لیے کیے جائیں نہ کہ قربت و روابط کے نئے سلسلے بنانے اور ان سے دنیوی اغراض و مقاصد حاصل کرنے کی نیت کے تحت کیے جائیں۔ نیز افطاری کے کھانے کو سادہ رکھا جائے، انواع و اقسام کی مرغن غذائیں اور طرح طرح کی ڈشیں میز بان کے اعلیٰ ذوق اور سخاوت کا اظہار تو ہو سکتی ہیں لیکن دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق نیکی کی روح کے منافی ہیں۔ اس لیے کہ روزے کا مقصد نفس کو مرغوبات و لذات سے روکنے کی تربیت دینا ہے نہ کہ لذت پرستی میں اضافے کا ایک نیا در کھولنا، نیز ایسے مواقع پر کھانے پینے کی اشیا کے ضائع ہونے اور کچرے کے ڈھیر پر پڑے رہنے سے رزق کی بے حرمتی کا اندیشہ زیادہ پایا جاتا ہے ۔