خاص بات یہ ہے کہ ہاورڈ کی یہ تحقیق ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکہ میں کورونا وائرس کے معاملات بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، اور ملک میں جاری سخت لاک ڈاون میں نرمی لانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
ہارورڈ ٹیم کے کمپیٹور سیمولیشن نے مانا ہے کورونا وائرس ایک موسمی بیماری کی شکل اختیار کر لے گا، یہ ٹھیک اسی طرح ہو جائے گا جیسے سردیوں کے موسم میں وائرل ہوتا ہے، تحقیقی مطالعہ کرنے والے ان محققین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابھی اس وبا سے متعلق بہت ساری چیزیں پوشیدہ ہیں، جس میں گزشتہ انفیکشن کے بعد اميونٹي لیول اور یہ اس کے جسم میں کس حد تک موجود رہنے کا وقت شامل ہے، تحقیقی مطالعہ ٹیم کے اہم محقق اسٹیفن کِسلر نے صحافیوں کو بتایا کہ 'تحقیق میں ہمیں یہ پتہ چلا ہے کہ معاشرتی فاصلہ برقرار رکھنا ہی ایک واحد راستہ ہے، انہوں نے کہا 'وائرس کے دیگر علاج کی عدم موجودگی میں جو ضروری ہے وہ ہے سماجی دوری'۔
ایک دیگر محقق مارک لپش کہتے ہیں کہ 'ایک ساتھ زیادہ لوگوں کی موجودگی کے دوران اس وائرس کے پھیلنے کا امکان زیادہ ہے، محققین کے مطابق اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹیسٹنگ بھی انتہائی ضروری ہے، اس کے علاوہ علاج اور ویکسین کی دستیابی کے بعد ہی لاک ڈاؤن کی مدت اور شدت کو کم کیا جاسکتا ہے، لیکن ایسا جب تک نہیں ہوتا ہے تب تک سوشل ڈسٹنسنگ، ہسپتالوں کو ان کی استعداد بڑھانے کے لئے وقت دے گا۔
حالانکہ محققین نے اعتراف کیا کہ ان کے ماڈل کی ایک بڑی کمی یہ ہے کہ ہم فی الحال اس نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں کہ 'پہلے سے متاثرہ شخص کی استثنیٰ کتنی مضبوط ہے اور یہ کتنی دیر تک باقی رہتی ہے'۔
ہارورڈ کے سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ وائرس دنیا میں طویل مدت تک بقی رہے گا، ہارورڈ کمپیٹور سیمولیشن کی ٹیم نے کہا کہ اس بات کا بہت امکان نہیں ہے کہ استثنیٰ کافی حد تک مضبوط ہوگا اور یہ طویل عرصے تک کافی ہوگا، انہوں نے اس امکان کو بھی مسترد کردیا کہ کورونا وائرس 2002-2003 کی 'سارس' کی طرح لہر ختم ہو جائے گا۔