ہمارے ملک کا انحصار زراعت پر ہے۔لیکن یہاں سال بھر کسان کے پسینے بہانے اور متعدد مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود بالآخر نقصان ہی ہاتھ لگتا ہے۔یہ صورت حال صرف آج کی حقیقت کو بیان نہیں کرتا ہے بلکہ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔جس وجہ سے آج کا کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہے۔
تاہم مرکزی حکومت اس سچائی کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ ہماری دیہی معیشت ہر گزرنے والے دن کے ساتھ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ لوگوں میں اس بات کو لیکر اضطراب پایا جاتا ہے کہ کیا اس صورتحال کے پیش نظر آنے والے مرکزی بجٹ میں کچھ اصلاحی اقدامات کئے گئے ہوں گے یا نہیں۔
حالیہ ایام میں کسانوں کی آمدنی سال 2022ء تک دوگنی کرنے سے متعلق تجویز گشت کررہی تھی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کے اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ غیر نفع بخش زراعت کے نتیجے میں کسانوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے اور اب کسان اپنا پیشہ ترک کرکے ذریعہ معاش کے متبادل انتظامات کرنے لگے ہیں۔
'گاؤکنکشن' بھارت کا سب سے بڑا دیہی پلیٹ فارم ہے، جس کی رپورٹ کے مطابق 48 فیصد کسان نہیں چاہتے ہیں کہ ان کی بچے کاشتکاری میں اپنا مستقبل دیکھیں۔اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسانوں کی مدد کے لیے قرضوں کی اسکیموں کا فائدہ ان تک پہنچ نہیں پاتا ہے۔
چین ، کوریا، تائیوان جیسے ممالک اور بھارت میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ مذکورہ ممالک زرعی پیداوار کو برآمد کرتے ہیں۔ جبکہ بھارت ایک کنزیومر سوسائٹی ہے۔ اس ملک میں آبادی کا دو تہائی حصہ ابھی بھی دیہی علاقوں میں رہ رہا ہے۔ جبکہ زرعی شعبہ کا 54 فیصد آبادی کے لیے زراعت ہی ذریعہ معاش ہے۔
نیشنل سروے آف سیمپلنگ( این ایس او ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق کسانوں کی آدھی آبادی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
ملک کی اقتصادی حالت تب تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تک دیہی شعبے کو کوئی راحت فراہم نہیں کی جائے۔ اس کے لئے زرعی شعبے سے جڑے لوگوں کی قوت خرید کو بڑھانے کے لئے حکومت کو اصلاحی اقدامات کرنے ہونگے۔ اسلئے بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے اضافی پرویژن رکھنا کسانوں پر کوئی احسان نہیں ہوگا۔ ملک میں اقتصادی بدحالی دور کرنا حکومت کی ایک فوری ذمہ داری ہے۔
لال بہادر شاشتری نے 'جئے جوان، جئے کسان' کا نعرہ بلند کرکے سپاہیوں اور کسانوں کو یکساں اہمیت دی تھی۔ سپاہی دشمن کو ملک سے باہر نکال دیتے ہیں اور کسان ملک کی آبادی کے لئے غذا فراہم کرتے ہیں۔
منصوبہ بند اقدامات کی عدم موجودگی کی وجہ سے کسانوں کی زندگی بدحالی کا شکار ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کا مسئلہ درپیش ہے اور وہ زرعی پیدوار کے لئے سرمایہ خرچ کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔
کسانوں کا مستقبل خطرات سے دوچار ہے کیونکہ وہ فی ایکڑ اراضی پر چھ ہزار روپے کا نقصان برداشت کررہے ہیں۔ایسی صورت حال میں وہ کیا کھائیں گے اور کیسے زندہ رہیں گے ۔ان کے اخراجات پورے نہیں ہوپارہے ہیں۔ یہاں تک کہ کپاس، سویااور سورج مکھئی جیسی تجارتی پیداوار سے بھی ان کے اخراجات پورے نہیں ہو پارہے ہیں کیونکہ مرکز نے ان اشیاء کیلئے بازارکے کم دام مقرر کر رکھے ہیں۔
نیشنل فارمرس سوسائٹیز نے وزیر اعظم مودی سے مارکیٹنگ سہولیات کسانوں کے حد اختیار میں رکھنے اورآفات سماوی کی صورت میں کسانوں کی مالی مدد کرنے کی درد مندانہ التجا کی ہے ۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ الیکٹرانک نیشنل ایگریکلچر ل مارکیٹ ( ای ۔این اے ایم )پروجیکٹ ، جسے مرکز نے زرعی پیداوار کو بیچنے کیلئے قائم کیا ہے، صیح کام کررہا ہے۔
پڑوسی ملک چین کسانوں کی بہبود اور نیشنل فوڈ سیکورٹی یقینی بنانے کے بعد اب پر اعتماد ہوکر آگے بڑھ رہا ہے۔اسرائیل اور امریکہ جیسے کئی ممالک کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے کئی احتیاطی اقدامات کررہے ہیں۔لیکن اس کے برعکس ہمارے ملک کی حکومتیں محض وقت گذاری سے کام لے رہی ہیں اور یہ مان کر چل رہی ہیں کہ اگر کسانوں کی پیداوار کی اچھی قیمت مقرر کی جائے تو وہ خود سر ہوجائیں گے۔
عام طور سے عوام کی اکثریت کے لئے غذا کو ترجیح حاصل ہے۔ لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ کسان، جو قوم کو غذا فراہم کررہے ہیں ۔ان کے مفادات کو بجٹ میں پس پشت ڈال دیا جاتاہے۔
چین ، جس کے پاس بھارت کے مقابلے میں قابل کاشت زمین کم ہے ۔ اپنی 95فیصد آبادی کی غذائی ضرورت اپنے بل پر فراہم کرتا ہے لیکن بھارت کو منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے دالیں ، تیل سیاہ ، یہاں تک کہ پیاز بھی دوسرے ممالک سے منگانے پڑتے ہیں۔
گزشتہ سال کئے گئے ایگریکلچر سروے کے مطابق پچھلے پانچ سال میں زرعی زمین میں 60لاکھ ایکڑ کی کمی واقع ہوئی ہے۔
ملک میں ایگریکلچر یونیورسٹیوں اور ریسرچ سینٹروں کی بھر مارکے باوجود ہم زرعی شعبے میں ہر گزرنے والے سال کے ساتھ سُست ہوتے جارہے ہیں۔کیونکہ ہر سال پیداوار کم ہوتی جارہی ہے۔دوسرے ممالک کے مقابلے میں زرعی شعبے میں ہم پچھڑتے جارہے ہیں۔
کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کیلئے سات پرت والی حکمت عملی کا اعلان کئے جانے کے باوجود صورتحال میں کوئی بہتری ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ سوائے اس کے کہ قرضے فراہم کرنے کی معمولی سہولت بہم پہنچائی گئی ہے۔ ساتھ مارکٹنگ سہولیات اور انشورنس کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔لیکن صورتحال کو بدلنے کیلئے کو مطلوبہ اصلاحی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔
حکومت کی طرف سے پیش کی جانے والی تجاویز موثر نہیں ہیں۔حکومت مدد کا تعین صرف سینٹرل ایگریکلچرل ایکس پنڈچر کمیشن (سی اے سی سی ) کی سفارشات پر کرتی ہے ، جو کہ ایک مذاق کے مترادف ہے۔اگر یہ مذاق جاری رہا توملک کی فوڈ سیکورٹی کے لئے بھیانک نتائج برآمد ہونگے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ کم از کم اب تومرکزی اور ریاستی حکومت تلخ حقائق کا سامنا کرنے کیلئے جاگ جائیں۔جب زرعی شعبے کیلئے ایک خصوصی بجٹ مرتب کیا جائے گا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زمینی سطح پر کسانوں کے لئے کچھ بہتر اقدامات اٹھائیں جائیں گے تو ہی غریب کسانوں کی زندگی میں حقیقی خوشحالی آئے گی اور اسی طرح سے قوم کی مجموعی ترقی کے لئے بھی راہ ہموار ہوجائے گی ۔