ETV Bharat / bharat

بھارت قلت تغذیہ(مال نیوٹریشن) پر کیسے قابو پاسکتا ہے؟

پبلک ہیلتھ فاونڈیشن آف انڈیا کی ہیڈ نیوٹریشن ریسرچ اینڈ ایڈیشنل پروفیسر شویتا کھنڈیلوال نے بھارت میں قلت تغذیہ یا مال نیوٹریشن کو ختم کرنے کے سلسلے میں چھ اہم نکات بتائیں جسے اپنا کر بھارت آسانی سے آئندہ چند برسوں میں مال نیوٹریشن سے آسانی سے چھٹکارا حاصل کرپائے گا۔

author img

By

Published : Feb 29, 2020, 5:07 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 11:30 PM IST

بھارت غذائی قلت(مال نیوٹریشن) پر کیسے قابو پاسکتا ہے؟
بھارت غذائی قلت(مال نیوٹریشن) پر کیسے قابو پاسکتا ہے؟

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس۔4، سی این این سی) کی غذائیت سے متعلق تازہ سروے کے مطابق اب بھی بھارت میں قلت تغذیہ یا مال نیوٹریشن کی وجہ ہر تیسرا بچہ متاثر ہے۔جس میں 17 فیصد ویسٹںگ یعنی لمبائی کے حساب سے وزن کم ہونا، 35 فیصد بچے اسٹنڈ یعنی عمر کے حساب سے کم لمبائی ہونا اور 33 فیصد بچے انڈر ویٹ یعنی معمول وزن کے حساب سے کم وزن سے متاثر ہیں۔

برازیل کے صدر جائر بالسنارو کو ملک کے 71ویں یومِ جمہوریہ پر مہمانِ خصوصی کے بطور مدعو کرنا ایک خوش آئند قدم تھا۔اس اقدام پر ملک کی نیوٹریشن کمیونٹی انتہائی خوش تھی کیونکہ برازیل اپنے وہاں صرف چار سال کے اندر اسٹنٹنگ کی شرحوں کو کم کرنے میں کامیاب رہا ہے، جو اب 55 فیصد سے گھٹ کر محض 6 فیصد ہوگئی ہے۔ مزید برآں وہاں عمر کے حساب سے کم بڑھنے والے بچوں یعنی خراب نشوونما پانے والے بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔

برازیل کیلئے ایسا کرنا کس طرح ممکن ہوپایا ہے؟ دراصل برازیل نے پہلے اُن وجوہات کا تجزیہ کیا جن کی وجہ سے بچوں کی بہتر نشوونما نہیں ہو پارہی تھی۔اس حوالے سے جن عناصر کی نشاندہی ہوئی وہ خوراک کی ناکافی رسائی، خواتین و اطفال کی ناکافی دیکھ بال، صحت کی دیکھ بال کی ناکافی سہولیات اور غیر صحتمند ماحول جیسے مسائل تھے۔

کیا یہ مسائل بھارت کیلئے تشویشناک ہوسکتے ہیں؟بالکل بھارت کو بھی بڑی حد تک ان سبھی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن باقی ممالک سے ان مسائل کے حل کی نقل کرکے اُنہیں بھارت میں آزمانا اتنا آسان نہیں ہوسکتا ہے۔کسی بھی ملک کے طریقہ کار کو یونہی نقل کرنامناسب نہیں ہوسکتا ہے لیکن اُن کے طریقہ کار دانشمندی سے تجزیہ کرکے اُسے ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے یہاں ایسی حکمتِ عملی مرتب کرنا مددگار ضرور ہوسکتا ہے۔

میں اس مضمون سے کیا چاہتی ہوں؟ میں کچھ نیا تو نہیں چاہتی ہوں بس یہ کہ سرکار کا 'کپوشن مُکت بھارت' سنہ 2022 کا پروگرام مزید موثر طریقے سے کامیاب ہو اور ملک سے غذائی قلت یا مال نیوٹرشن کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفع ہوجائے۔اس سلسلے میں مئیں کئی چیزوں کے بارے میں مضبوط حکمتِ عملی مرتب کرنے کا مشورہ دیتی ہوں، تاکہ غذائیت کی کمی کے مختلف اقسام ک کو قابو کرنے کیلئے ہماری پہلے سے جاری جدوجہد موثر اور حقیقی معنوں میں نتائج دکھا سکے۔

نمبر1: اعلیٰ معیار اور صحیح اعدادوشمار تیار کرنے کے ذرائع پر توجہ مرکوز کی جائے۔بروقت کارروائی کو بہتر بنانے کیلئے طریقے اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔صحیح سمت میں بروقت اور فوری کارروائی کیلئے موثر نگرانی اور تشخیصی عمل کی بھی بڑی ضرورت ہے اور یہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

نمبر 2: نظام ہائے خوراک

صحت مند آبادیوں کیلئے خوراک ایک اہم ترین کڑی ہے۔موجودہ نظامِ خوراک میں اچھی طرح گھر کا پکایا جانے والا کھانا، جس میں تازہ، موسمی اور مقامی طور پر دستیاب ہونے والا اناج، سبزیاں، اور میوہ شامل ہیں اور غیر صحت مند کھانے کو رد کرنے کی ضرورت ہو، جس میں زیادہ چربی، چینی اور نمک والے خوراک شامل ہیں۔

قومی تغذیہ پروگرام کے مطابق غذائیت میں اہم عناصر کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے 'فورٹیفائیڈ گرینس' جیسے اناج کھانے پر زور دیا۔ ہے۔فورٹیفائیڈ گرینس میں غذائیت کے عناصر جیسے وٹامن اور معدنیات شامل کیے جاتے ہیں، جو قدرتی طور پر اناج میں موجود نہیں ہوتےہیں۔لیکن دیسی اور روایتی کھانے ہمارے گھروں اور رکابی میں واپس آگئے ہیں۔

نمبر3:مالیات

پیسے کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں ہے! نہ صرف صحتِ عامہ اور تغذیہ کیلئے ترجیحی مالی اعانت کو برقرار رکھنا ضروری ہے بلکہ لوگوں کو صحتمند انتخاب کیلئے آمادہ کرنے کیلئے مالی اقدامات مددگار ثابت ہونگے۔غربت، صنفی تفریق اور آمدنی میں عدم مساوات کو دور کرنے کیلئے بہتر طور پر دوست پالیسیاں اپنانے کی طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے۔سرکار کی جانب سے کوششیں جاری تو ہیں لیکن بہتر آمدنی اور صحت و تغذیہ کی سہولیات کی رسائی کو یقینی بنانے سے ہی پسماندہ طبقوں میں امید کی کرن نظر آئیگی ۔رشوت ستانی اور کمزور جوابدہی کی وجہ سے اسکیموں کے تحت فائدہ اُٹھانے والوں میں ہونے والی گڑبڑ کی نشاندہی کرکے اسکا سدِ باب کیا جانا چاہیئے۔

نمبر4: خصوصی طور پر ماں کا دودھ پلانا اور نو زائیدہ نوعمر بچےکےلیے جاری کردہ گائیڈ لائنس (آئی وائی سی ایف)

جہاں حکومت کے ساتھ بہت ساری توقعات وابستہ ہیں لیکن ایک نو زائید بچے کو کھلانے، پلانے کے حوالے سے انفرادی ذمہ داری کو بھی مدِ نظر رکھنا ضروری ہے۔خاندانی حرکیات، معاشرتی-معاشی حیثیت، رسائی و سہولت،کام کی معاون پالیسیاں وغیرہ جیسے بیرونی عوامل کا یقینا دخل اندازی ضروری ہے لیکن ہمارے دو سال سے کم عمر کے نونہالوں کے 7فیصد کو ناکافی غذا اور نشوونما ملنے کا کوئی عذر نہیں ہوسکتا ہے۔

غذائیت کی قلت کے اثرات ابتدائی عمر میں ظاہر نہیں ہو پاتے ہیں اسی لئے نگہداشت کرنے والے اس بات کا ادراک نہیں کرپاتے ہیں کہ وہ شاید صحیح غذائیت، تنوع، مقدار اور درکار کے مطابق کھانا کھلا پارہے ہیں یا نہیں۔ ہمارے معاشرے میں ماں کا دودھ پلانا جلدی ختم ہوتا ہے اور مناسب تکمیلی غذا کافی دیر سے شروع ہوتی ہے۔

بار بار انفکشن سے تحفظ کیلئے حفظانِ صحت کے مطابق خوراک کی تیاری، صاف ماحول اور بروقت حفاظتی ٹیکے لگانا بھی ضروری ہے کیونکہ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ عمر کے پہلے 1 ہزار دنوں میں جو نقصان بچے(باالخصوص مجموعی نشوونما اور دماغ بڑھنے کو)کو پہنچتا ہے اسے بہت حد تک صحیح نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس حوالے سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ مستقبل کی فکر نہ کرکے ہم بھوک اور غذائیت قلت کو دور کرنے کے لیے 'کوئیک فکس' کا استعمال کرتے ہیں۔

نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ (این ایف ایس اے)کے تحت اکیلے اناج پر چھوٹ دینا اور (راشن گھر لیجاو، مِڈ ڈے میلز، آنگن واڑی میلز وغیرہ)کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور کھانا دینے سے یہ ہوسکتا ہے کہ ہم 'ماڈریٹ اکیوٹ مال نیوٹریشن' (ایم اے ایم) میں کمی تو کرسکتے ہیں، لیکن ہم انہیں چھوٹی عمر میں ہی غیر چھوت چھات والی بیماریوں (این سی ڈی) کا نشانہ بنارہے ہیں۔

اس بارے میں انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کہ کہیں لوگ مالنیوٹریشن کی ایک قسم سے نکل کر اسی کی دوسری قسم میں نہ پڑ جائیں۔کئی ریاستوں میں خوراک میں میوہ، ہری سبزیوں، انڈوں اور دالوں کو متعارف کرائے جانے سے بہتری ہوسکتی ہے، لیکن یقینا اس چیز کو بڑے پیمانے پر اپنانے کی ضرورت ہے۔

نمبر5: تبادلہ خیال اور صلاحیت بڑھانا–

پانی، صفائی ستھرائی، روزگار، تعلیم، تشہیر، حفاظتی ٹیکہ جات، زراعت اور ماحولیات جیسے شبعوں کو دوسرے شعبوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے سے یہ غذائی قلت کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک اہم کڑی ثابت ہوگی۔مشترکہ ملکیت، جوابدہی اور ہموار کارروائی و فراخدلانہ اعتراف کیلئے وقت کی پابند لاجسٹِکس کی منصوبہ بندی اور مراعات وغیرہ بڑی حد تک مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

صلاحیت کے فقدان سے نمٹنے کیلئے خالی اسامیوں کو پُر کرنا، بھرتی عمل میں تاخیر سے بچنا، بر وقت ترقی دینا، قلیل المدتی تربیت، کارکردگی کو بہتر کرنے جیسے اقدامات مددگار ہوسکتے ہیں۔مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھنے والا عملہ سسٹم کی نا اہلیوں پر بھی غالب آسکتا ہے، آپسی صلاح مشوروں سے مقامی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے اورعملہ کی رغبت کو برقرار رکھتے ہوئے کارکنوں کو مختلف لوگوں کے سامنے کام کو دہرانے اور جوابدہی سے بچاسکتا ہے۔مطالعات میں یہ دستاویزی ہے کہ آنگن واڑی ورکروں کے دستاویزی کام(بار بار کے اندراجات،رپورٹ بنانا وغیرہ)کی وجہ سے پری اسکولنگ کے بارے میں صلاح و مشورے کیلئے درکار وقت ایک چوتھائی رہ گیا ہے۔

نمبر6:بہتر تغذیہ کیلئے اعداوشمار کو عمل میں لانے کی ٹیکنالوجی

حقیقی طور پر ٹیکنالوجی سرکار اور انفرادی دونوں سطح پر غذائیت جیسے شعبے میں تیز رفتار ترقی دلانے میں مددگار ہوسکتی ہے۔ایک طرف ٹیکنالوجی لوگوں کو بہتر اور باخبر انتخاب کرنے کے اہل بناتی ہے تو دوسری جانب یہ(ٹیکنالوجی)پالیسی سازوں کو جن آندولن اور اشترا کی ملکیت کی خاطرمعاشرتی وکالت کیلئے سوشل میڈیا کی طاقت فراہم کرتی ہے ۔لازم ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کی ان اعلیٰ معیار کی ایجادات میں سرمایہ کاری کریں، جن سے برتاؤ کی تبدیلی مثبت انداز میں متاثر ہو۔جدید آلات سے علم کو عمل میں لایا جانا چاہیئے تاکہ لوگوں کی زندگی میں مثبت بدلاؤ لایا جاسکے۔

صحیح سمت میں کوششیں کی جائیں تو دیر یا سویر حقیقی اثر ضرور دیکھنے کو ملے گا۔بھارت ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو تقریبا تمام عمر کے لوگوں کیلئے وسیع اور متنوع عوامی تغذیاتی پروگرام اور پالیسیاں رکھنے پر فخر کرتا ہے۔تاہم مالنیوٹریشن کی تمام اقسام کے خلاف تدارکی اقدامات کو تیز کرنے اور موثر بنانے کیلئے سبھی متعلقین کابہتر اورتجدید شدہ توانائی کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے۔اختراعی خیالات اور اجتماعی کوششیں مختصراَ اس سمت میں ایک اچھا اور مناسب اقدام کہلا سکتا ہے۔

مضمون نگار:شویتا کھنڈیلوال،ہیڈ نیوٹریشن ریسرچ اینڈ ایڈیشنل پروفیسر،پبلک ہیلتھ فاونڈیشن آف انڈیا

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس۔4، سی این این سی) کی غذائیت سے متعلق تازہ سروے کے مطابق اب بھی بھارت میں قلت تغذیہ یا مال نیوٹریشن کی وجہ ہر تیسرا بچہ متاثر ہے۔جس میں 17 فیصد ویسٹںگ یعنی لمبائی کے حساب سے وزن کم ہونا، 35 فیصد بچے اسٹنڈ یعنی عمر کے حساب سے کم لمبائی ہونا اور 33 فیصد بچے انڈر ویٹ یعنی معمول وزن کے حساب سے کم وزن سے متاثر ہیں۔

برازیل کے صدر جائر بالسنارو کو ملک کے 71ویں یومِ جمہوریہ پر مہمانِ خصوصی کے بطور مدعو کرنا ایک خوش آئند قدم تھا۔اس اقدام پر ملک کی نیوٹریشن کمیونٹی انتہائی خوش تھی کیونکہ برازیل اپنے وہاں صرف چار سال کے اندر اسٹنٹنگ کی شرحوں کو کم کرنے میں کامیاب رہا ہے، جو اب 55 فیصد سے گھٹ کر محض 6 فیصد ہوگئی ہے۔ مزید برآں وہاں عمر کے حساب سے کم بڑھنے والے بچوں یعنی خراب نشوونما پانے والے بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔

برازیل کیلئے ایسا کرنا کس طرح ممکن ہوپایا ہے؟ دراصل برازیل نے پہلے اُن وجوہات کا تجزیہ کیا جن کی وجہ سے بچوں کی بہتر نشوونما نہیں ہو پارہی تھی۔اس حوالے سے جن عناصر کی نشاندہی ہوئی وہ خوراک کی ناکافی رسائی، خواتین و اطفال کی ناکافی دیکھ بال، صحت کی دیکھ بال کی ناکافی سہولیات اور غیر صحتمند ماحول جیسے مسائل تھے۔

کیا یہ مسائل بھارت کیلئے تشویشناک ہوسکتے ہیں؟بالکل بھارت کو بھی بڑی حد تک ان سبھی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن باقی ممالک سے ان مسائل کے حل کی نقل کرکے اُنہیں بھارت میں آزمانا اتنا آسان نہیں ہوسکتا ہے۔کسی بھی ملک کے طریقہ کار کو یونہی نقل کرنامناسب نہیں ہوسکتا ہے لیکن اُن کے طریقہ کار دانشمندی سے تجزیہ کرکے اُسے ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے یہاں ایسی حکمتِ عملی مرتب کرنا مددگار ضرور ہوسکتا ہے۔

میں اس مضمون سے کیا چاہتی ہوں؟ میں کچھ نیا تو نہیں چاہتی ہوں بس یہ کہ سرکار کا 'کپوشن مُکت بھارت' سنہ 2022 کا پروگرام مزید موثر طریقے سے کامیاب ہو اور ملک سے غذائی قلت یا مال نیوٹرشن کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفع ہوجائے۔اس سلسلے میں مئیں کئی چیزوں کے بارے میں مضبوط حکمتِ عملی مرتب کرنے کا مشورہ دیتی ہوں، تاکہ غذائیت کی کمی کے مختلف اقسام ک کو قابو کرنے کیلئے ہماری پہلے سے جاری جدوجہد موثر اور حقیقی معنوں میں نتائج دکھا سکے۔

نمبر1: اعلیٰ معیار اور صحیح اعدادوشمار تیار کرنے کے ذرائع پر توجہ مرکوز کی جائے۔بروقت کارروائی کو بہتر بنانے کیلئے طریقے اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔صحیح سمت میں بروقت اور فوری کارروائی کیلئے موثر نگرانی اور تشخیصی عمل کی بھی بڑی ضرورت ہے اور یہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

نمبر 2: نظام ہائے خوراک

صحت مند آبادیوں کیلئے خوراک ایک اہم ترین کڑی ہے۔موجودہ نظامِ خوراک میں اچھی طرح گھر کا پکایا جانے والا کھانا، جس میں تازہ، موسمی اور مقامی طور پر دستیاب ہونے والا اناج، سبزیاں، اور میوہ شامل ہیں اور غیر صحت مند کھانے کو رد کرنے کی ضرورت ہو، جس میں زیادہ چربی، چینی اور نمک والے خوراک شامل ہیں۔

قومی تغذیہ پروگرام کے مطابق غذائیت میں اہم عناصر کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے 'فورٹیفائیڈ گرینس' جیسے اناج کھانے پر زور دیا۔ ہے۔فورٹیفائیڈ گرینس میں غذائیت کے عناصر جیسے وٹامن اور معدنیات شامل کیے جاتے ہیں، جو قدرتی طور پر اناج میں موجود نہیں ہوتےہیں۔لیکن دیسی اور روایتی کھانے ہمارے گھروں اور رکابی میں واپس آگئے ہیں۔

نمبر3:مالیات

پیسے کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں ہے! نہ صرف صحتِ عامہ اور تغذیہ کیلئے ترجیحی مالی اعانت کو برقرار رکھنا ضروری ہے بلکہ لوگوں کو صحتمند انتخاب کیلئے آمادہ کرنے کیلئے مالی اقدامات مددگار ثابت ہونگے۔غربت، صنفی تفریق اور آمدنی میں عدم مساوات کو دور کرنے کیلئے بہتر طور پر دوست پالیسیاں اپنانے کی طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے۔سرکار کی جانب سے کوششیں جاری تو ہیں لیکن بہتر آمدنی اور صحت و تغذیہ کی سہولیات کی رسائی کو یقینی بنانے سے ہی پسماندہ طبقوں میں امید کی کرن نظر آئیگی ۔رشوت ستانی اور کمزور جوابدہی کی وجہ سے اسکیموں کے تحت فائدہ اُٹھانے والوں میں ہونے والی گڑبڑ کی نشاندہی کرکے اسکا سدِ باب کیا جانا چاہیئے۔

نمبر4: خصوصی طور پر ماں کا دودھ پلانا اور نو زائیدہ نوعمر بچےکےلیے جاری کردہ گائیڈ لائنس (آئی وائی سی ایف)

جہاں حکومت کے ساتھ بہت ساری توقعات وابستہ ہیں لیکن ایک نو زائید بچے کو کھلانے، پلانے کے حوالے سے انفرادی ذمہ داری کو بھی مدِ نظر رکھنا ضروری ہے۔خاندانی حرکیات، معاشرتی-معاشی حیثیت، رسائی و سہولت،کام کی معاون پالیسیاں وغیرہ جیسے بیرونی عوامل کا یقینا دخل اندازی ضروری ہے لیکن ہمارے دو سال سے کم عمر کے نونہالوں کے 7فیصد کو ناکافی غذا اور نشوونما ملنے کا کوئی عذر نہیں ہوسکتا ہے۔

غذائیت کی قلت کے اثرات ابتدائی عمر میں ظاہر نہیں ہو پاتے ہیں اسی لئے نگہداشت کرنے والے اس بات کا ادراک نہیں کرپاتے ہیں کہ وہ شاید صحیح غذائیت، تنوع، مقدار اور درکار کے مطابق کھانا کھلا پارہے ہیں یا نہیں۔ ہمارے معاشرے میں ماں کا دودھ پلانا جلدی ختم ہوتا ہے اور مناسب تکمیلی غذا کافی دیر سے شروع ہوتی ہے۔

بار بار انفکشن سے تحفظ کیلئے حفظانِ صحت کے مطابق خوراک کی تیاری، صاف ماحول اور بروقت حفاظتی ٹیکے لگانا بھی ضروری ہے کیونکہ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ عمر کے پہلے 1 ہزار دنوں میں جو نقصان بچے(باالخصوص مجموعی نشوونما اور دماغ بڑھنے کو)کو پہنچتا ہے اسے بہت حد تک صحیح نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس حوالے سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ مستقبل کی فکر نہ کرکے ہم بھوک اور غذائیت قلت کو دور کرنے کے لیے 'کوئیک فکس' کا استعمال کرتے ہیں۔

نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ (این ایف ایس اے)کے تحت اکیلے اناج پر چھوٹ دینا اور (راشن گھر لیجاو، مِڈ ڈے میلز، آنگن واڑی میلز وغیرہ)کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور کھانا دینے سے یہ ہوسکتا ہے کہ ہم 'ماڈریٹ اکیوٹ مال نیوٹریشن' (ایم اے ایم) میں کمی تو کرسکتے ہیں، لیکن ہم انہیں چھوٹی عمر میں ہی غیر چھوت چھات والی بیماریوں (این سی ڈی) کا نشانہ بنارہے ہیں۔

اس بارے میں انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کہ کہیں لوگ مالنیوٹریشن کی ایک قسم سے نکل کر اسی کی دوسری قسم میں نہ پڑ جائیں۔کئی ریاستوں میں خوراک میں میوہ، ہری سبزیوں، انڈوں اور دالوں کو متعارف کرائے جانے سے بہتری ہوسکتی ہے، لیکن یقینا اس چیز کو بڑے پیمانے پر اپنانے کی ضرورت ہے۔

نمبر5: تبادلہ خیال اور صلاحیت بڑھانا–

پانی، صفائی ستھرائی، روزگار، تعلیم، تشہیر، حفاظتی ٹیکہ جات، زراعت اور ماحولیات جیسے شبعوں کو دوسرے شعبوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے سے یہ غذائی قلت کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک اہم کڑی ثابت ہوگی۔مشترکہ ملکیت، جوابدہی اور ہموار کارروائی و فراخدلانہ اعتراف کیلئے وقت کی پابند لاجسٹِکس کی منصوبہ بندی اور مراعات وغیرہ بڑی حد تک مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

صلاحیت کے فقدان سے نمٹنے کیلئے خالی اسامیوں کو پُر کرنا، بھرتی عمل میں تاخیر سے بچنا، بر وقت ترقی دینا، قلیل المدتی تربیت، کارکردگی کو بہتر کرنے جیسے اقدامات مددگار ہوسکتے ہیں۔مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھنے والا عملہ سسٹم کی نا اہلیوں پر بھی غالب آسکتا ہے، آپسی صلاح مشوروں سے مقامی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے اورعملہ کی رغبت کو برقرار رکھتے ہوئے کارکنوں کو مختلف لوگوں کے سامنے کام کو دہرانے اور جوابدہی سے بچاسکتا ہے۔مطالعات میں یہ دستاویزی ہے کہ آنگن واڑی ورکروں کے دستاویزی کام(بار بار کے اندراجات،رپورٹ بنانا وغیرہ)کی وجہ سے پری اسکولنگ کے بارے میں صلاح و مشورے کیلئے درکار وقت ایک چوتھائی رہ گیا ہے۔

نمبر6:بہتر تغذیہ کیلئے اعداوشمار کو عمل میں لانے کی ٹیکنالوجی

حقیقی طور پر ٹیکنالوجی سرکار اور انفرادی دونوں سطح پر غذائیت جیسے شعبے میں تیز رفتار ترقی دلانے میں مددگار ہوسکتی ہے۔ایک طرف ٹیکنالوجی لوگوں کو بہتر اور باخبر انتخاب کرنے کے اہل بناتی ہے تو دوسری جانب یہ(ٹیکنالوجی)پالیسی سازوں کو جن آندولن اور اشترا کی ملکیت کی خاطرمعاشرتی وکالت کیلئے سوشل میڈیا کی طاقت فراہم کرتی ہے ۔لازم ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کی ان اعلیٰ معیار کی ایجادات میں سرمایہ کاری کریں، جن سے برتاؤ کی تبدیلی مثبت انداز میں متاثر ہو۔جدید آلات سے علم کو عمل میں لایا جانا چاہیئے تاکہ لوگوں کی زندگی میں مثبت بدلاؤ لایا جاسکے۔

صحیح سمت میں کوششیں کی جائیں تو دیر یا سویر حقیقی اثر ضرور دیکھنے کو ملے گا۔بھارت ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو تقریبا تمام عمر کے لوگوں کیلئے وسیع اور متنوع عوامی تغذیاتی پروگرام اور پالیسیاں رکھنے پر فخر کرتا ہے۔تاہم مالنیوٹریشن کی تمام اقسام کے خلاف تدارکی اقدامات کو تیز کرنے اور موثر بنانے کیلئے سبھی متعلقین کابہتر اورتجدید شدہ توانائی کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے۔اختراعی خیالات اور اجتماعی کوششیں مختصراَ اس سمت میں ایک اچھا اور مناسب اقدام کہلا سکتا ہے۔

مضمون نگار:شویتا کھنڈیلوال،ہیڈ نیوٹریشن ریسرچ اینڈ ایڈیشنل پروفیسر،پبلک ہیلتھ فاونڈیشن آف انڈیا

Last Updated : Mar 2, 2020, 11:30 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.