19 اپریل 2017: سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کیس میں ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی سمیت بی جے پی اور آر ایس ایس کے متعدد رہنماؤں کے خلاف فوجداری مقدمات چلانے کا حکم دیا۔
21 مارچ 2017: سپریم کورٹ نے باہمی اتفاق سے تنازع کو حل کرنے کی بات کہی۔
جولائی 2016: بابری مسجد کیس کے فریق میں سے ایک قدیم قانونی مقدمہ بازی کرنے والے ہاشم انصاری کا انتقال ہو گیا۔
9 مئی 2011: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔
30 ستمبر 2010: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے فیصلہ دیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ رام مندر میں، دوسرا حصہ سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑا کے حوالے کر دیا۔
28 ستمبر 2010: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کو متنازع کیس میں فیصلہ سنانے سے روکنے والی درخواست کو خارج کرتے ہوئے فیصلے کی راہ ہموار کردی۔
جولائی 2009: لبرہن کمیشن نے اس کی تشکیل کے 17 سال بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ پیش کی۔
ستمبر 2003: ایک عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مسجد کو منہدم کرنے کے لیے ورغلانے والے سات ہندو رہنماؤں کو سماعت کے لیے بلایا جائے۔
مارچ - اگست 2003: بھارتی آثار قدیمہ کے سروے نے الہ آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر ایودھیا میں کھدائی کی۔ بھارتی آثار قدیمہ کے سروے نے دعویٰ کیا ہے کہ مندر کے باقیات مسجد کے نیچے پائے گئے ہیں۔ اس بارے میں مسلمانوں میں مختلف آراء تھیں۔
اپریل 2002: ہائی کورٹ کے تین ججوں کی بینچ نے ایودھیا میں متنازع مقام کی ملکیت سے متعلق سماعت شروع کردی۔
جنوری 2002: وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اپنے دفتر میں ایودھیا کا محکمہ شروع کیا جس کا کام اس تنازع کو حل کرنے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرنا تھا۔
16 دسمبر 1992: مسجد انہدام کے ذمہ دار حالات کی تحقیقات کے لیے لبرہن کمیشن تشکیل دیا گیا۔
6 دسمبر 1992: ہزاروں کار سیوکوں نے ایودھیا پہنچنے کے بعد بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ عارضی طور پر رام مندر بنائی گئی۔
اکتوبر 1991: اترپردیش میں کلیان سنگھ حکومت نے بابری مسجد کے ارد گرد 2.77 ایکڑ اراضی کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔
نومبر 1990: اڈوانی کو بہار کے سمستی پور میں گرفتار کیا گیا، اس کے بعد بی جے پی نے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی۔
25 ستمبر 1990: بی جے پی کے صدر لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے اترپردیش کے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی، جس کے بعد ملک بھر میں متعدد مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات برپا ہو گئے۔
9 نومبر 1989: اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی حکومت نے بابری مسجد کے قریب سنگ بنیاد کی اجازت دی تھی۔
یکم جولائی 1989: لارڈ راما للا وراجمان کے نام پانچواں مقدمہ دائر کیا گیا۔
جون 1989: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مندر کی نئی تحریک شروع کرتے ہوئے وی ایچ پی کو باضابطہ مدد دینا شروع کردیا۔
یکم فروری 1986: فیض آباد ڈسٹرکٹ جج نے متنازع جگہ پر ہندوؤں کو عبادت کرنے کی اجازت دی۔ تالے دوبارہ کھول دئے گئے۔ مشتعل مسلمانوں نے احتجاج میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل دی۔
1984: وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے بابری مسجد کے تالے کھولنے اور رام جنم استھان کو خودمختار بنانے اور ایک بہت بڑا مندر بنانے کے لیے ایک مہم شروع کی۔ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔
18 دسمبر 1961: اترپردیش سنی وقف بورڈ نے بابری مسجد پر ملکیت کے لیے مقدمہ دائر کیا۔
17 دسمبر 1959: نرموہی اکھاڑا نے متنازع مقام کو منتقل کرنے کا مقدمہ دائر کیا۔
5 دسمبر 1950: مہنت پرمہنس رامچندر داس نے بابری مسجد میں ہندوؤں کی پوجا جاری رکھنے اور رام کی مورتی کو رکھنے کے لیے مقدمہ دائر کیا۔ اس مسجد کو 'دھانچا' نام دیا گیا۔
16 جنوری 1950: گوپال سنگھ وشاراد نے فیض آباد عدالت میں رام للا کی پوجا کی خصوصی اجازت کے لیے اپیل دائر کی۔
23 دسمبر 1949: مبینہ طور پر 50 کے قریب ہندوؤں نے مسجد کے مرکزی مقام پر رام کی مورتی رکھ دی، اس کے بعد ہندوؤں نے اس جگہ پر باقاعدگی سے پوجا شروع کی، مسلمانوں نے نماز پڑھنا چھوڑ دیا۔
1885: مقدمہ پہلی بار عدالت میں پہنچا۔ مہنت راگھوبر داس نے بابری مسجد سے متصل رام مندر بنانے کی اجازت کے لیے فیض آباد عدالت میں اپیل دائر کی۔
1859: برطانوی حکومت نے متنازع زمین کے اندرونی اور بیرونی احاطے میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو الگ الگ عبادت کے لئے اجازت دے دی اور ایک خاردار کھڑا کر دیا۔
1853: ہندوؤں نے یہ الزام عائد کیا کہ یہ مسجد رام کے مندر کو منہدم کر کے بنائی گئی تھی۔ پہلا تشدد اس مسئلے پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین ہوا تھا۔
1528: بابر نے یہاں ایک مسجد کی تعمیر کرائی جس کا نام بابری مسجد رکھا گیا، ہندو عقائد کے مطابق بابری مسجد کی جگہ رام کی جائے پیدائش ہے۔