شاہی امام مولانا سید احمد بخاری نے سنی وقف بورڈ کی طرف سے ایودھیا کیس سے دستبرداری پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
مولانا سید احمد بخاری بابری مسجد کے تعلق سے غیرمتوقع صورت حال پر تبدیلی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا اچانک کیا ہوا کہ بابری مسجد کے حوالے سے 300 سال زائد پرانے موقف سے انحراف کرنا پڑا۔ انحراف ہی نہیں بلکہ دستبرداری کے لیے حلف نامے تک بات پہنچ گئی۔
شاہی امام نے کہا کہ اگر بابری مسجد سے دستبرداری کا یہ فیصلہ قرآن و حدیث، فقہ اسلامی اور اجماع ملت کے پس منظر میں لیا گیا ہے تو آج اچانک یہ ایک حقیقت بن کر کیوں ابھرا ہے؟ اس حقیقت یا مصلحت کو یہاں تک آنے میں اتنی مدت کیوں لگی؟ اسلامی تو 1400 سالوں سے ایک ہی ہے اور تاقیامت ایک ہی رہے گا تو پھر اس پیش بندی میں 23 سال کا عرصہ کیوں لگا؟ ہزاروں معصوم جانوں کو لقمہ اجل کیوں بنایا گیا؟ لاکھوں خاندانوں کی اقتصادیات اور عزت نفس کو نیلام کیوں ہونے دیا گیا؟
انھوں نے کہا کہ جہاں تک جامع مسجد دہلی کا تعلق ہے۔ وہ اپنے سابقہ موقف پر قائم ہیں، لیکن اب کیوں کہ عدالتی فیصلہ بھی اس سودے بازی کے پس منظر میں ہوگا۔ لہذا انھیں بھی اپنے موقف پر پوری امت کی طرح نظر ثانی کرنی ہوگی۔ وہ خدا کے سامنے اس گھر کی سودے بازی کے مجرم ہو کر کسی قیمت پر جانا گوارا نہیں کریں گے۔
آج صبح چند میڈیا اداروں کی طرف سے خبر چلائی گئی کہ ایودھیا کیس کے اہم فریق سنی وقف بورڈ کیس سے دستبردار ہو سکتی ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ فریق سنی وقف بورڈ اس کے لیے حلف نامہ سپریم کورٹ میں داخل کر رہی ہے۔
لیکن تاحال سنی وقف بورڈ کی طرف سے اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔
آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی نے کہا کہ انھیں سنی وقف بورڈ کے ذریعے کیس سے دستبردار ہونے کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہے۔
ظفریاب جیلانی نے کہا کہ تاحال سنی وقف بورڈ کی طرف سے سپریم کورٹ میں کوئی حلف نامہ داخل نہیں کی گئی ہے۔