جب سے دنیا میں کورونا وائرس نامی وبا پھیلی ہوئی ہے، جشن کی محفلوں کا انعقاد اور روایتی تقریبات منانے کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ اب اس طرح کی تقریبات کو وبا پھیلنے کا ایک ذریعہ سمجھا جانے لگا ہے۔ اس بیچ بعض لوگ کووِڈ 19 کی وجہ سے کئی ممالک میں اموات کی کم شرح پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آئیس لینڈ یا پھر چین میں وائرس کی وجہ سے اموات کی شرح ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ اس کی وجہ سے بعض لوگوں میں اُمید پیدا ہوگئی کہ وہ اس وبا سے بچ جائیں گے۔ اٹلی میں کورونا وائرس کی وجہ سے مرنے والوں کی عمومی عمر 78 سال دیکھنے کو مل رہی ہے جبکہ امریکہ میں مرنے والوں کی عمومی عمر اس سے کم ہے بلکہ امریکہ میں تو زیادہ تر مرنے والے ایک مخصوص رنگ کے لوگ ہیں۔ غرض ان اموات سے متعلق ایک عجیب و غریب صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔
دُنیا میں طرح طرح کی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ لوگ تنہائی میں ماتم کر رہے ہیں۔ لوگ مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ بھارت کے ایک شہر میں تو کووِڈ 19 کی وجہ سے مرنے والے ایک 65 سالہ متاثرہ شخص کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔ اسے 252 کہہ کر پکارا گیا تھا۔ اس شخص کی موت پر اس کا کوئی رشتہ دار سامنے نہیں آیا۔ حکام نے اس کی میت کو خاموشی سے ٹھکانے لگا دیا کیونکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وائرس سے مرنے والوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے دوران انفیکشن پھیل سکتا ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے کسی کی موت اس کے خاندان کا ایک نجی معاملہ ہوا کرتا تھا۔ افراد خانہ اور دوست احباب مرنے والے کی موت پر ماتم کرتے تھے۔ اس کی زندگی کی یادوں کو تازہ کرتے تھے۔ آج بھی مرنے والوں کے عزیز و اقارب ایسا کرسکتے ہیں لیکن انہیں یہ سب چوری چھپے اور خوف کے ساتھ کرنا پڑے گا۔
دُنیا کی دوسری اقوام کی طرح بھارتیوں میں بھی ان دنوں مور و حیات کے بارے میں کئی سوالات موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ دراصل عمومی طور پر لوگ یہ سمجھنے سے قاصر نظر آرہے ہیں کہ آخر اس وبا کی وجہ سے کیا کچھ ہورہا ہے۔ہمارے ملک میں لوگ کئی طرح کے سوالات پوچھ رہے ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ آخر ہمارے ملک میں کیا ہونے جارہا ہے؟ کیا یہاں وبا پھیل رہی ہے یا ختم ہورہی ہے؟ مرنے والوں کی اصل تعداد کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ان سولات کا اپنے طور پر جواب دے رہے ہیں۔ دراصل ان سوالات کا بالکل صیح جواب دینے کے لئے وبا کا ماہر، ایک حساب داں اور ایک انجینئر ہونا ضروری ہے۔ یا پھر ان سوالات کا صیح جواب دینے کے لئے ٹیکنالوجی کی حامل مصنوعی ذہانت درکار ہوگی۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا کورونا وائرس سب سے زیادہ تعداد میں مارنے والا مرض ہے؟ دوسرے امراض کی وجہ سے شرح اموات کیا ہے؟ کینسر، سڑک حادثات اور ہائی بلڈ پریشر جیسی چیزوں سے بھی تو بڑی تعداد میں لوگ مرجاتے ہیں۔ کیا آج بھی ان وجوہات سے اتنے ہی لوگ مر رہیں ہیں، جتنا کورونا وائرس کے نمودار ہونے سے پہلے مارے جاتے تھے۔ جب ہمارے آسمان آلودگی سے بھر گیا تھا۔ ہوا زہر آلودہ تھی اور ٹریفک حادثات رونما ہورہے تھے، اس وقت ان وجوہات سے بڑی تعداد میں اموات ہورہی تھیں۔ تاہم ان وجوہات سے مرنے والوں کے بارے میں ہمارے پاس صیح اعداد و شمار میسر نہیں ہیں۔چونکہ اب لوگ گھروں سے باہر نہیں آرہے ہیں، اس لئے سڑک حادثات رونما نہیں ہورہے ہیں۔ تاہم کئی مائیگرینٹ مزدور لاک ڈاون اور پولیس کے قہر سے بچنے کے لئے گھر جانے کی کوشش کے دوران سڑک حادثات میں مارے گئے۔ ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ پنجاب میں ایک پولیس اہلکار اُس وقت مارا گیا ،جب ایک تیز رفتار گاڑی نے اس کی موٹر سائیکل کو ٹکر ماردی۔حالیہ ایام میں ان چند واقعات کے سوا کوئی ناگہانی موت واقع نہیں ہوئی۔
اسپتالوں نے عمومی طور پر عام بیماریوں کے حامل مریضوں کا علاج و معالجہ بند کردیا ہے۔ کئی اسپتالوں میں ایمر جنسی اور او پی ڈی کے شعبے بند کردیئے گئے ہیں۔ کیونکہ ان اسپتالوں میں اب زیادہ تر جگہ صرف کووِد 19 کے مریضوں کے لئے مختص رکھی گئی ہے۔ یہاں تک کہ کینسر کے مریضوں جنہیں کیمو تھرپی دی جاتی تھی انہیں بھی گھر بھیج دیا گیا ہے۔ دہلی اور دوسری کئی جگہوں پر اسپتالوں سے نکال باہر کئے گئے لوگ اب سڑکوں پر مررہے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تک کووِڈ19 کے مریضوں کا علاج و معالجہ کیا جاتا رہے گا، کیا تب تک دوسری وجواہات سے مرنے والوں کی تعداد کم رہے گی؟ امریکہ میں جب ایک سرکاری افسر سے پوچھا گیا کہ اسپتالوں میں دوسرے مریضوں کا علاج و معالجہ کیوں نہیں کیا جارہا ہے تو اس نے جواباً کہا کہ اس وقت کورونا وائرس کے سوا کسی اور بات کی وجہ سے بیمار پڑنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کیا واقعی دُنیا میں لاک ڈاون کی وجہ سے کم اموات ہورہی ہیں؟ لکھنو میں واقع ایک شمشان گھاٹ میں گزشتہ تیس دن کے دوران آخری رسومات کی ادائیگی کے حوالے سے کم اعداد و شمار دیکھنے کو ملے ہیں۔ یہاں پہلے اوسطاً ہر ماہ گیارہ سو میتیوں کو جلایا جاتا تھا لیکن گزشتہ تیس دنوں کے دوران یہاں صرف آٹھ سو میتیں آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے لائی گئی ہیں۔ دہلی کے ایک شمشان گھاٹ میں بھی اسی طرح کی صورتحال دیکھنے کو ملی۔
اموات کی شرح میں اس کمی سے کیا نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں؟ بھارت میں سب سے زیادہ اموات کا سبب ہارٹ اٹیک یا دل سے جڑی دیگر بیماریاں ہیں اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر سانس سے جڑی بیماریوں کی وجہ سے اموات ہیں۔ اور پھر سڑک حادثات کی وجہ سے لوگ مارے جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ معمول کی طرح دیگر امراض کی وجہ سے بھی مسلسل اثرات مرتب ہوں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اسپتالوں میں دیگر امراض کے مریضوں کو آنے سے روکا جارہا ہے۔ لوگوں کو یہ مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ گھروں میں بیٹھیں اور اپنی قوت مدافعت کے ذریعے خود کو ٹھیک ہونے دیں۔ امریکہ میں ماضی میں کی گئی ایک تحقیق میں پتہ چلا تھا کہ ڈاکٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے مریضوں کی اموات میں کمی واقع ہوگئی تھی۔ یہ نتیجہ صرف ایک تحقیق سے اخذ نہیں کیا گیا، بلکہ دنیا کے سات مختلف حصوں میں کی گئی تحقیقات سے بھی اسی طرح کانتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر مریضوں کو صرف اسی صورت میں اسپتال لایا جائے، جب وہ بہت زیادہ علیل ہوں، تو اس طرح سے اموات کی شرح میں کمی واقع ہوگی۔ کئی بار مریض اسی وقت زیادہ علیل ہوجاتے ہیں، جب انہیں اسپتال میں داخل کردیا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ مریضوں کی جانچ کے عمل کو شفاف بنایا جانا چاہیے۔ اس عمل کو صرف ڈاکٹروں کی منشا پر منحصر نہیں رکھا جانا چاہیے۔ عمومی طور پر ڈاکٹرز وہ ٹیسٹ بھی کراتے ہیں، جنہیں کرانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ہے۔
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد ان لوگوں کی اموات سے کم ہوتی ہیں جو دیگر وجوہات یعنی ہارٹ اٹیک، سڑک حادثات وغیرہ سے مرتے ہیں، وہ ان دنوں مطمئن نظر آ رہے ہیں۔ بہرحال حکام کو چاہیے کہ وہ معمول کی زندگی بحال کرنے کا راستہ نکالیں۔ موجودہ صورتحال برقرار رہنے کی وجہ سے انسانی معاشروں میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوکر رہ جائیں گی۔ موجودہ حالات میں جب میتوں کی وجہ سے انفیکشن پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، ممکن ہے کہ آخری رسومات کی ادائیگی کا روایتی طریقہ بھی تبدیل ہوکر رہ جائے۔