بہار میں اسمبلی انتخاب کی تیاری اپنے عروج پر ہے، لیکن ارریہ کے راج پوکھریا پنچایت میں واقع بہینگی گاؤں وارڈ نمبر 8 کی عوام انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے کو مجبور ہے۔
لوگ سوال کر رہے ہیں ان کے اچھے دن کب آئیں گے۔ یہ علاقہ دلت مہا دلت آبادی پر مشتمل ہے، مگر بنیادی سہولیات کے نام پر یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ علاقہ ندی کے کنارے آباد ہے، سیلاب کے دنوں ندی میں زبردست کٹان ہوتا ہے جس کی وجہ سے متعدد گھر ندی میں سما چکے ہیں۔
اس گاؤں کے حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں انتخابات کے موسم میں ایم پی یا ایم ایل اے ووٹ مانگنے بھی نہیں آتے، حالانکہ یہاں کے لوگ ووٹ ضرور دیتے ہیں۔
اس بار یہاں کی عوام نے مکمل طور پر ووٹنگ کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے، کیوں کہ بوتھ مرکز گاؤں سے سات کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور وہاں تک جانے کے لیے کوئی صورت نہیں ہے۔
گاؤں کے بزرگ بدم لال چودھری آبدیدہ ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ' میری عمر سو سال سے زائد ہو گئے مگر ہم لوگوں کی حالت نہیں بدلی، نہ سڑک ہے، نہ سیلاب سے نجات'۔
ان کا کہنا ہے کہ 'وہ اس بار ووٹ دینے نہیں جائیں گے۔ وہیں گاؤں کے سابق مکھیا عبد القدوس کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے اس علاقے کی خستہ حالی کا ذکر مقامی ایم پی سے لیکر ایم ایل اے اور ضلع انتظامیہ تک کے پاس کیا مگر اس پر کسی کی توجہ نہیں ہوئی۔ آخر اس گاؤں کے لوگوں کی تقدیر کب بدلے گی، بچوں کے پڑھنے کے لئے نہ کوئی اسکول مکتب ہے اور نہ ہسپتال۔ مقامی خاتون سینتا دیوی کہتی ہے ہم لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ گاؤں کے آس پاس ہی بوتھ مرکز بنایا جائے، اپنے بچوں کو اس ندی کے پاس چھوڑ کر ووٹ دینے نہیں جائیں گے'۔
سوال یہ ہے کہ انتخاب کے دوران عوام سے بڑے بڑے وعدے کر کے اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی رہنما اپنے وعدے کیوں بھول جاتے ہیں، ان بے کس اور بے سہارا عوام کی حالت زار کو سمجھنے کے لئے عوامی نمائندے یا ضلع انتظامیہ کے افسران یہاں کیوں نہیں پہنچتے، کیا ان لوگوں کی پریشانی سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے، اور پھر جب یہ عوام ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کر چکی ہے تو پھر اس کے ذمہ دار کون ہوں گے؟